تحریر : نسیم الحق زاہدی سیاست سے کوئی تعلق تو نہیں مگر بطور ایک قلمکار سیاست دانوں کے ساتھ شناسائی ضرور ہے حقیقت تو یہ کہ میں موجود سیاست سے سخت خائف ہوں میں ریاست مدینہ والی سیاست کا قائل ہوں جو کہ ممکن نہیں آج جو بھی عوام کی خدمت کے دعویدار سیاست دان بنے ہوئے ہیں یقین جانیے عوام کو سب سے زیادہ انہی لوگوں نے تکالیف پہنچائی ہیں بہت کم ایسے افراد ہیں جنہوں نے سیاست کو خدمت سمجھ کر صیحح معنوں میں عوامی نمائندہ ہونے کا حق ادا کیا ہے اور ایسے افراد آج اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا نام ومقام اور اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں لوٹے کڑچھے چمچے تقریباہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں وہ خواہ سیاسی جماعت ہو یا مذہبی جماعت ایسے مخصوص افراد کا ایک گروہ ہوتا ہے جن کا کام صرف اور صرف چاپلوسی ‘خوش آمد کرنے کے سواء کچھ نہیں ہوتا اور اسی بدولت وہ اعلیٰ مرعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ایسے بازاری اور بکے ہوئے لوگ کبھی بھی اچھے اور تعلیم یافتہ طبقے کو آگے نہیں آنے دیتے کیونکہ وہ خود کو عقل قل سمجھتے ہیں یہی حال دینی جماعتوں کا ہے ایک پورا متحرک گروہ موجود ہوتا ہے جن کا کام صرف اور صرف علامہ ‘مولوی ‘مفتی کے جھوٹے اور من گھڑت قصے اور کہانیوں کو حقائق بنا کر بھولے بھالے لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔
معذرت کے ساتھ سیاست میں بہت کم افراد کو باکرداربالخصوص (خواتین )کو دیکھا ہے بد کرداری سے مراد کوئی بھی سیاست دان ایسا نہیں جو جرائم ‘کرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی نہ کرتا ہو رشوت نہ کھاتا ہو مظلوموں اور غریبوں کا استحصال نہ کرتا ہوکیونکہ کسی نے بڑی مچھلی سے پوچھا کہ وہ بڑی کیسے بنی تو اس نے کہا کہ چھوٹی مچھلیوں کو نگل کراور بڑی مچھلیوں کو لیکر چلنا ہر جماعت کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ جماعتیں سرمایہ کیساتھ چلتی ہیں اور سرمایہ وہی لوگ خرچ کرتے ہیں جنہوں نے مظلوموں ‘غریبوں کے احساسات’جذبات کا قتل کرنا ہوتا ہے انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنے والوں کو عہدوں اور مرتبوں کی ضرورت نہیں ہوتی بیگم صفیہ اسحاق کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہے جواپنے وطن اور قائدین سے والہانہ محبت کرتے ہیں مگر عہدوں کے لالچ میں نہیں وہ اپنے کام کو اپنا انعام سمجھتے ہیں بیگم صفیہ اسحاق مایہ ناز سائنسدان اور انسان دوست ادب دوست ڈاکٹر محمد اسحاق ڈی فل آکسن کی شریک حیات ہیں جو چالیس سال تک کنگ عبدالعزیز یونیووسٹی جدہ میں شعبہ تحقیق وتدریس سے منسلک رہے ہیں اور ریٹائرڈ ہونے کے فورا بعد وطن عزیز پاکستان لوٹ آئے ہیں ان کا مقصد حیات اپنے وطن کو ڈیلور کرنا ہے بیگم صفیہ اسحاق کے آبائو اجداد کی قیام پاکستان کے حوالے سے گراں قدرخدمات ہیں جن کو چاہ کر بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا آپ کے والد الحاج غلام حیدر جانباز اسلام کے سچے شیدائی اور عاشق رسول تھے۔
Community Service
جنہوں نے بلا امتیاز ‘مذہب ونصب انسانیت کی خدمت کی بیگم صفیہ اسحاق کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے کہ 1999ء میں جب مسلم لیگ (ن) زوال کا شکار ہوئی آمریت کاسورج طلوع ہوا اور شریف فیملی پر کڑا وقت آیا اس وقت جب میاں نواز شریف کے وہ ساتھی جو جان دینے کی باتیں کرتے تھے وہی جب زہر اگلنے لگے اور دشمنوں کی صفوں میں جاکر کھڑے ہوگئے اور کچھ تو مناظر سے ہی غائب ہو گئے اس وقت اس تن تنہا صنف نازک نے وہ کام کیا جو بڑے بڑے دعویدار مضبوط اعصب مرد نہ کر سکے جب لبوں پر بھی سلاسل تھے جمہوریت کا نام لیوائوں کو سخت سزائوں سے گزرنا پڑتا تھا اس وقت اس مجاہدہ نے نہ صرف شریف فیملی کے ساتھ حمایت کا اعلان کیا بلکہ زندگی کی آخری سانسوں تک وفاداری کا یقین دلایا میاں محمد نواز شریف نے جب سعودی عرب میں تنظیم سازی کی ذمہ داریا ں سونپیں تو بیگم صفیہ نے بغیر کسی خوف وخطر مسلم لیگ (خواتین )کو منظم کیا جس پر آپ کو مسلم لیگ (خواتین) سعودی عرب کا صدر نامزد کیا گیاآپ نظریہ پاکستان فورم جدہ سعودی عرب کی صدر بھی رہی ہیں۔
نظریہ پاکستان کے حوالے سے آپ کی خدمات کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا آپ بابائے صحافت مجید نظامی کو اپنا بڑا بھائی ‘استاد ‘راہبر ورہنما سمجھتی ہیں آپ کی مشہور کتاب ”مجید نظامی عہد ساز صحافی”جو کہ شہرت کے افق کو چھو چکی ہے آپ عرصہ دوسال سے وطن پاکستان واپس آچکی ہیں ایک طویل ترین ملاقات میں بیگم صفیہ اسحاق اور ڈاکٹر محمد اسحاق نے بہت سی پرانی یادوں کو یاد بھی کیااور کرایا بھی ایک بات جو دکھ اور افسوس کی ہے وہ یہ ہے معذرت کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بیگم صفیہ اسحاق کی جو اندون اور بیرون ملک خدمات ہیں وہ قابل ستائش اور قابل تعریف ہیں مگر تکلیف دہ بات یہ ہے قائدین نے آپ کو اس عہدے اور مقام سے نہیں نوازہ جس کی آپ حقدار ہیں حضرت علی کا مشہور قول ہے کہ دوست کا پتہ مشکل وقت میں چلتا ہے آج میاں صاحباںبرسر اقتدار ہیں مگر نچلی سطح میں سبھی سفارشی اور چاپلوس لوگ ہونے کی وجہ سے قابل عزت وتکریم افراد کو ان اصل مقام نہیں مل پاتا جو کہ ہمارے ہاں ایک بڑا المیہ ہے حق تو یہ بنتا ہے کہ وزیر اعظم میا ں محمد نواز شریف بیگم صفیہ اسحاق کو کم سے کم اپنا معاون خصوصی مقرر کریں کیونکہ وفادار لوگ ہر بار اور آسانی سے نہیں ملتے۔