آج کل ملک میں یہ بحث بڑے زور و شور کے ساتھ جاری ہے کہ طالبان کو شہید کہنا درست ہے کہ نہیں ،میں اس بحث میں اس لئے حصہ نہیں لینا چاہتا تھاکیونکہ میرے خیال میں شہید کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ جب روز آخرت کی جزاو سزا کا اختیارصرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر میں کون ہوتا ہوں کسی کو شہید یا ہلاک کہنے والا؟ جو لوگ اس بحث میں اپنا اور دوسروں کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں اُن سے میرا سوال ہے کہ اگر انسان ہر بات کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ کا وجود کون تسلیم کرتا ؟علماء کرام سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے کبھی معاشرے میں اسلامی اور انسانی قدروں کو فروغ دینے پر اس سنجیدگی کے ساتھ بحث کی ہے۔
جس طرح طالبان کے شہید ہونے یا نہ ہونے پر کر رہے ہیں؟ میں عالم دین نہیں اس لئے شاید قارئین کو میری رائے مطعمن نہ کرسکے اس لئے علماء کی مفید رائے بھی اپنی تحریر میں شامل کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کے مہتمم اور بانی مفتی نعیم صاحب کا کہنا ہے کہ کون شہید ہے اور کون نہیں یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے۔ حدیث شریف ہے کہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جوساری زندگی جنتیوں والے اعمال کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت بھر کافاصلہ رہ جاتا ہے ،پھر وہ کوئی ایسا عمل کرگزرتا ہے کہ جہنم کا مسحق بن جاتا ہے۔
اسی طرح کوئی ساری زند گی جہنم والے اعمال کرتا ہے اور پھر کوئی ایسا عمل کرجاتا ہے کہ جنت کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ یعنی کوئی مفتی یا سیاست دان کسی کو جنتی یا جہنمی یاپھر شہید ہونے یا نہ ہونے کی سند نہیں دے سکتا۔ بات بالکل صاف ہے لیکن مزید نکھار پیدا کرنے کی غرض سے میں نے اپنے محسن حافظ محمد آصف رضا صاحب سے ملاقات کیلئے وقت مانگا جس پر اُنہوں مجھے ویلکم welcome کہا۔میں نے حافظ صاحب سے سوال کیا کہ کیا ہمیں کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے پر اختیاری قسم کی بحث کرنی چاہئے؟(ج)ہرگز نہیں ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔
Allah
لیکن اسلام کی روح کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ضرو رہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ”جو اللہ کی راہ میں لڑتا ہوا قتل کردیا جائے تم اُسے مردہ گمان بھی مت کرو،وہ زندہ ہے۔ لیکن تم شعور نہیں رکھتے”(سورةالبقرہ) جوشخص اسلام کی سربلندی اورمسلمانوں کے جان ومال کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرتا قتل کردیا جائے وہ شہید ہے۔ہم مسلمانوں کو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم پر جہاد کب اور کس صورت میں فرض ہے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے جہاد کا فیصلہ خلیفہ وقت کرے اور اگر مسلمانوں کا حاکم اس حد تک شریعت کو نہیں سمجھتا کہ وہ جہاد کا فیصلہ کرسکے۔
تو پہلے قوم اپنی اور اپنے حاکم کی اصلاح کرے تاکہ کسی غلط فیصلے کے ذریعے ہونے والی ہلاکت سے بچا جا سکے۔لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں یہ خالصتا اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندے ہی کا معاملہ ہی ہے۔لیکن بد قسمتی سے دور حاضر کے سربراہان کی شروع کی ہوئے بحث نے عوام کو اصل حقائق سے ہٹا کر تفرقات میں اُلجھا دیا ہے جس کی وجہ سے عوام جہالت کے گھپ اندھیروں میںڈوب رہے ہیں اور علماء وقت عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے حکومتوں کے گرد گھوم رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت ملے گی تو ہم اسلامی قوانین کو فروغ دے سکتے ہیں ورنہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوںکا ماضی بتاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دولت مند اور طاقت ور حکمرانوں کو اہل ایمان اور اہل شعور پر ترجیح دی ہے ۔دولت و ددنیاوی شان وشوکت کے حامل جاہل لوگوں کو خلیفہ منتخب کرنے والوں کے شعور اور ایمان کی حالت کیا ہوسکتی ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہیں۔ لیکن ایک درخواست راقم بھی کرنا چاہتا ہے کہ خُدارا لوگوں کو گمراہ کرنا چھوڑ کر خود سیدھا راستہ اپنائیں اور دوسروںکو بھی دعوت دیں۔
جس طرح کسی کے شہید ہونے یا نہ ہونے کامعاملہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندے کے درمیان ہے اِسی طرح یہ بات بھی حق ہے کہ یہ دنیا کسی کیلئے بھی مستقل رہنے کی جگہ نہیں بلکہ ایک مسافر خانہ ہے ہمیں اس دنیا سے جلد جانا ہے۔یعنی یہ کائنات اور اس کی تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ کی ہیں ہم جس زمین پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھے ہیں وہ دراصل ہماری نہیں ہے۔
شاید اسی سچائی کی وجہ سے ہر دولت مند شخص کے دل سے یہ خوف نہیں جاتا کہ کہیں اُس کی دولت نہ چھن جائے۔ دولت تو دور کی بات ہے جس زندگی کیلئے دنیا کی دولت پیاری لگتی ہے وہ زندگی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ کسی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی کہ دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے ۔طے کررہا ہے جوتو دو دن کا وہ سفر ہے دو دن کی مختصر زندگی کو غیر حاصل بحث میں گزار دنیا کہاں کی عقل مندی ہے۔