تحریر : نذیر قیصر آسمان کے نیچے ہماری زمین پر سارے مناظر تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ساحل منیر کی شاعری انہی تیز رفتار تبدیلیوں کی داستان رقم کرتی ہے اور ان تبدیلیوں میں مثبت اقدار کی آرزو بھی کرتی ہے۔ ساحل منیر انسانی اقدار کے شاعر ہیں۔وہ جنگ کی جگہ امن،بے انصافی کی جگہ انصاف،نفرت کی جگہ محبت اور اندھیرے کی جگہ روشنی کے خواب دیکھتے ہیں۔آج ہماری دنیا یروشلیم سے سانگلہ ہل تک آگ میں جلتی دکھائی دیتی ہے۔بدھا نے کہا تھا۔َ “رنگ جل رہے ہیں۔
خوشبوئیں جل رہی ہیں۔چہرے جل رہے ہیں ۔خیالات جل رہے ہیں۔حرف جل رہے ہیں ۔کتابیں جل رہی ہیں۔اور اے پروہت!یہ آگ تیرے اندر لگی ہوئی ہے جو تیری اندھی خواہشات نے لگا رکھی ہے”۔ جب خواہشات اندھی ہو جاتی ہیں تو انسان کے اندر لگی ہوئی یہ آگ اس کے ارد گرد کی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اور پھر اس آگ میں سب کچھ جلنے لگتا ہے۔
گھر، سکول، مسجد، مندر،گرجا گھر، گوردوارے، میوزیم، لائبریریاں سب کچھ ان شعلوں کی نذر ہو جاتا ہے اور جب انسان کے ہاتھوں حرف اور کتابیں جلنے لگتی ہیںتو تہذیبیں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ ساحل منیر نے اپنی شاعری میں حرف اور انسان کو بچانے کا پیغام دیا ہے۔حرف اور انسان کو بچانا انسانی تہذیب کو بچانے کا عمل ہے۔ہمارے پائوں کی مٹی تخلیقی معنوں میںبانجھ ہوتی جا رہی ہے۔اب اس میں حرف بونے کا موسم ہے۔
Civilisation
انسانی تہذیب کو تخلیقی، با معنی اور خوبصورت بنانے کا موسم۔۔۔مگر یہ موسم کسی زندہ حرف کا منتظر ہے۔مبارک ہیں وہ ہاتھ جو دھرتی میں زندہ حرف بوتے ہیں ۔ساحل منیر کے ہاتھ اسی عمل میں مصروف ہیں۔کیا ہم ان کے لئے دعا نہیں کریں گے۔۔۔؟تاکہ نئے موسموں،نئے خوابوں، نئے آسمانوں اور نئے پرندوں کی اڑان کے ساتھ ہم سب ایک بار پھر سے زندہ ہو سکیں۔