اسلام آباد (جیوڈیسک) ساہیوال واقعے پر ایڈیشنل ہوم سیکرٹری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے اعتراف کیا اور کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کارروائی کا طریقہ درست نہیں تھا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیرصدارت ہوا جس کے دوران ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب فضیل اصغر نے کمیٹی کو ساہیوال واقعے پر بریفنگ دی۔
اس موقع پر ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ انسداد دہشتگردی کارروائی کا طریقہ درست نہیں تھا، دیکھنا چاہیے تھا کہ کار کے اندر کون بیٹھا ہے، اگر بچے ہیں تو کسی منزل پر پہنچ کر دیکھتے۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا خدشات کے باوجود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ غلط کیا گیا۔
فضیل اصغر نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ مانگا منڈی کے کیمرے نے ساڑھے نو بجے گاڑی کو رپورٹ کیا، توقع کی جارہی تھی کہ دہشت گرد اپنا ٹھکانہ تبدیل کر کے کہیں اور جا رہے ہیں، تھریٹ الرٹ بھی تھا کہ بڑی دہشت گردی کی کارروائی ہو سکتی ہے اور ان دونوں ممکنات پر کارروائی ہوئی۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا گاڑی سے فائر ہوا یا نہیں یہ جے آئی ٹی کی تحقیقات سے واضح ہوگا، وقوعہ کا وقت ساڑھے گیارہ، پونے بارہ بجے تھا، اس مقابلے میں ذیشان اور خلیل اوراس کی فیملی ماری گئی تاہم اس وقت تک یہ تو واضح ہے کہ خلیل اور اس کی فیملی بے گناہ تھی۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا 13 جنوری سے پہلے تک دہشت گردی سے متعلق عدیل اور عثمان کی تصویریں تھیں، ذیشان کی نہیں تھیں اور پہلی مرتبہ 13 جنوری کو ان دونوں کے ساتھ تیسرا شخص دیکھا گیا جو ذیشان تھا، کار کی ایک تصویر تھی، ساتھ میں ایک اور گاڑی بھی نظروں میں آئی۔
گاڑی ساہیوال سے فیصل آباد گئی، انٹیلی جنس ان کے پیچھے تھی جہاں ایک ٹھکانے پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہوا جس میں عدیل اور عثمان مارے گئے اور ذیشان پیدل گلیوں سے کہیں نکل گیا تھا۔
فضیل اصغر نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ فیصل آباد میں مارے گئے دو دہشت گرد جب 13 جنوری کو ساہیوال میں دیکھے گئے تو وہاں وہ لاہور سے ذیشان کے گھر سے نکلے تھے اور فیصل آباد تک جاتے وقت وائس میسجز تھے کہ کہاں پہنچے، ٹول پلازہ آگیا، شکل بچا کر نکلنا وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ ایک سم برآمد ہوئی جس کی لوکیشن ذیشان کے گھر کے سامنے آئی، اس کے علاوہ عدیل کے موبائل سے ذیشان کی سیلفی ملی، اس کے بعد ڈھونڈنا شروع کیا کہ کار کہاں ہے، پھر کچا جیل روڈ پر کار نظر آئی۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا ہائی الرٹ تھا کہ گاڑی والے ہی بدلہ لیں گے کیوں کہ وہ ہر وقت ساتھ ہوتے تھے، گلی میں گاڑی ٹریس ہوئی جس پر نظر رکھنی شروع کی کہ کون اس پر جاتا ہے اور 19 جنوری کو جب گاڑی گلی سے نکلی تو پتہ نہ چل سکا، گاڑی عام راستے کی بجائے کسی اور جانب سے نکلی اور مانگا منڈی کیمرے پر گاڑی آئی تو پیچھا شروع ہوا۔
ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا افغانستان سے داعش کی کال بھی پکڑی گئی جس میں کہا گیا کہ عدیل اور عثمان مارے گئے، بدلے میں بڑا دہشت گردی کا واقعہ کرنا ہے اور 17 جنوری کی رات کو مصری شاہ سے بڑے بڑے باکسز میں دھماکہ خیز مواد پکڑا گیا۔
اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب سے سوال کیا کہ بچے نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے والد نے پیسے بھی آفر کیے، اگر اس کا بیان درست ہے تو آپ کا بیان غلط ہے جس پر ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب فضیل اصغر نے کہا بچے کا بیان صدمے کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا واقعے کے فوری بعد آنے والے بیان کی قانونی حیثیت بہت زیادہ قابل قبول ہے، آپ بچے کے بیان کو اتنا ہلکا نہ لیں، پولیس کو جے آئی ٹی بنانے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے، پولیس نے سارے ثبوت مٹا دیے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے سوال کیا کہ گاڑی سے ملنے والی جیکٹس اور اسلحہ کہاں ہے، اگر وہ اب تک سامنے نہیں آیا تو ثبوت بدلے جاچکے ہیں، اگر آپ کا مقصد صرف مارنا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کلنگ اسکواڈ بنے ہوئے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ دہشتگردوں کو مارتے ہیں، کیا پتہ کہ ان میں سے بھی اکثر بے گناہ ہوں۔
سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا راؤ انوار بھی ایسا ہی کرتا تھا، پتہ نہیں وہ کیسے دہشت گرد مارتا تھا جن کی طرف سےایک فائر بھی نہیں ہوتا تھا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایکشن ایبل انٹیلی جنس معلومات کے باوجود 17 یا 18 جنوری کو کاروائی کیوں نہیں کی۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور ان کی 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے بھی زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔