چودہ اگست کو لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے تحریک انصاف کے سربراہ نے دھرنے سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے شہر شہر جلسوں کی کال دی اور ساہیوال جہلم و دیگر شہروں میں جلسے ہو چکے ہیں ۔حتمی جلسہ اسلام آباد کو 30 نومبر کو ہو گا جس کا شور مچایا جا رہا ہے اور حکومتی اراکین ایک بار پھر عمران خان کے جلسے سے خوفزدہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ تین ماہ تک دھرنا دینے والی جماعت میں سے ایک تو فرار ہو گئی اور دوسری دھرنوں کی ناکامی کے بعد جلسوں پر آ گئی۔
ان دھرنوں سے مسلم لیگ(ن) کی حکومت مضبوط تر ہوئی۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے حکومت کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کیا کیونکہ جب خان نے استعفیٰ مانگا تھا تو پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں نے وزیراعظم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور بھر پور حمایت کی ۔اگر دھرنے نہ ہوتے یہ تو شاید یہی جماعتیں جو وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھی تھیں وہ مختلف ایشو پر حکومت کے خلاف ہوتیں لیکن دھرنوں نے سب کو متحد کیا ۔اب تیس نومبر کے جلسے کا سب کو انتظارہے ۔تحریک انصاف بھر پور تیاریاں کر رہی ہے تو دوسری طرف انسداد دہشت گردی عدالت عمران خان اور طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر چکی ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کو گرفتار نہ کئے جانے کے احکامات جاری کئے جائیں۔
پہلے ہی سیاسی طور پر حالات خراب ہیں اور اگر ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات اور بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعض سینئر رہنماؤں نے وفاقی حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی گرفتاری سے احتراز کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیاسی طور پر حالات خراب ہو سکتے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کی 30 نومبر کی احتجاج کی کال پر بھرپور سکیورٹی کا منصوبہ بنالیا ہے۔30 نومبر کو سپریم کورٹ’ پارلیمنٹ’ وزیراعظم ہاؤس’ پی ٹی وی اور ایوان صدر سمیت دیگر حساس عمارتوں پر فوج تعینات رہے گی۔
حکومت کا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو گرفتار کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔وارنٹ رفتاری پولیس نے نہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جاری کئے۔جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے مقدمات قطعی طور پر واپس نہیں لئے جائیں گے پاکستان تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات کسی کمزوری کے تحت نہیں کریں گے۔تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات کا حتمی فیصلہ اب وزیراعظم کریں گے۔14 اگست کو تحریک انصاف کی طاقت سب نے دیکھ لی اب دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بغیر کتنے لوگ آتے ہیں۔30 نومبر کو عمران خان کی دھمکی دیکھتے ہیں کون رہتا ہے۔ تحریک انصاف خود آزاد عدلیہ کی بات کرتی ہے لیکن جوڈیشل کمیشن میں خفیہ ایجنسیوں کی نمائندگی غیر آئینی ہے۔
امید ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں پی ٹی آئی خفیہ ایجنسیوں کی شرط کو رکاوٹ نہیں بنائے گی۔ا حکومت اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ڈاکٹر طاہرالقادری کو کچھ معاشی مسائل درپیش تھے یا وہ ناراض ہوکر چلے گئے۔انہوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ دھرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ حکومت نے ریڈ زون میں سیکیورٹی مسائل حل کرنے کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے آرڈیننس کے تحت ریڈ زون کی سیکیورٹی کیلئے اتھارٹی قائم کی جائے گی اتھارٹی میں آئی جی ، ڈی آئی جی، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر شامل ہوں گے۔ پولیس کو ریڈ زون میں داخلے ہونے والے کسی بھی شخص کی تلاشی لینے، اس کا داخلہ روکنے یا چیک کرنے کا اختیار ہو گا پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے پر ایک ماہ قید یا ایک سے دو ہزار روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی
ریڈ زون میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر چھ ماہ قید یا پانچ سے دس ہزار روپیہ جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ریڈ زون میں غیر قانونی اجتماع پر تین سال قید یا پانچ سے دس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔ ڈنڈا بردار شخص کے کسی کو زخمی کرنے یا نقصان پہنچانے پر تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ، اسلحہ لہرانے ، خواتین و بچوں کو انسانی ڈھال بنانے پر پانچ سے دس سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ریڈ زون میں غیرقانونی چیک پوسٹیں بنانے اور سرکاری عمارتوں میں زبردستی داخل ہونے پر بھی پانچ سے دس سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔ہائی سیکیورٹی زون میں گندگی پھیلانے پر ایک سے دو ہزار روپے جرمانہ ہو گا اور یہی جرم دہرانے پر تین ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا جائیگا۔
Police
پولیس کے کسی اقدام کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا تاہم چیف کمشنر اسلام آباد کو آرڈیننس کے قواعد میں تبدیلی کا اختیار ہو گا۔ آرڈیننس کے سیکشن چھ اور آٹھ ناقابل ضمانت جرائم ہوں گے اس میں انسانی ڈھال بنانا اور غیرقانونی اجتماع کے جرائم شامل ہیں مسودہ وزارت قانون کو بھجوادیا گیا۔جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کی قیادت پر واضح کردیاہے کہ 30 نومبر کو اگرپی ٹی آئی نے خیبر پی کے حکومت کے خاتمہ کے حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھایا تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے راستے جداہونگے اورجماعت اسلامی اپنے طور پر فیصلے کرے گی۔پشاور میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور سپیکر خیبر پی کے اسمبلی اسد قیصر کے درمیان ہونے والی ون آن ون ملاقات میں امیر جماعت اسلامی نے سپیکر اسد قیصرکے توسط سے تحریک انصاف کی قیادت کو پیغام ارسال کیا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے 30 نومبر کو احتجاج اور دھرنے کے حوالے سے جو اعلانات کئے جارہے ہیں ان کے حوالے سے جماعت اسلامی میں تشویش پائی جاتی ہے۔
ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ تحریک انصاف صوبائی حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔اگر تحریک انصاف کی قیادت خیبر پی کے اسمبلی کو تحلیل کرتی ہے توجماعت اسلامی اور ان کی راہیں جدا ہوں گی۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کہتے ہیں کہ عمران خان نے 30 نومبر کو اسلام آباد میں دہشت گردی کا تہیہ کررکھا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے کچھ دہشت گردوں کیساتھ رابطے کی بھی کوشش کی ہے،حکومت نے دھرنے کے معاملے میں صبر کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے لوگوں کو ان کا اصل چہرہ سامنے آگیا ہے، طاہرالقادری نے اپنے کینیڈین پاسپورٹ کی تجدید کے لئے دھرنا ختم کردیا، ہم چاہتے ہیں کہ عوام ان کے عزائم کے لئے استعمال نہ ہوں۔ حکومت تحریک انصاف سے بات چیت کے لئے تیار ہے، ہماری طرف سے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا گیا۔
ہم آج بھی مذاکرات کے لئے تیارہیں اور مذاکرات آئین اورقانون کے اندر رہتے ہوئے ہوں گے۔حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش عمران خان کو قبل کرنی چاہئے اور ملک میں جاری دھرنوں کا سلسلہ ختم کرنا چاہئے کیونکہ جب نوے دنوں میں نتیجہ نہیں نکلا تو اگلے سو دنوں میں بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی کے اندر سے اختلافات ختم کروائین اور تنظیم نو کریں کیونکہ تحریک انصاف سے ہاشمی پہلے جا چکے ہیں اور اراکین قومی اسمبلی جنہوں نے استعفے نہیں دیئے ان کی بنیادی رکنیت معطل کی جا چکی ہے،خان کو چاہئے کہ نواز شریف کے استعفیٰ کے بجائے تحریک انصاف کا مستقبل بچائیں اور وہ دھرنوں سے نہیں بلکہ تنظیم نو سے بچے گا۔پارٹی اگر مضبوط ہوگئی تو دھرنے والوں کی خواہش 2018میں تو پوری ہو سکتی ہے اس سے قبل ممکن نہیں۔