لاہور (جیوڈیسک) سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کی فیملی کو اسلام آباد بلا کر خوار کیا، اگر وہ نہیں ملنا چاہتے تھے تو بلایا کیوں تھا؟
دوسری جانب ترجمان ایوان صدر کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز ساہیوال واقعے سے متاثرہ فیملی کے ساتھ صدر مملکت کی کوئی ملاقات طے نہیں تھی۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ مقتول خلیل کا خاندان صدر مملکت سے ملاقات کے لیے اسلام آباد روانہ ہوا، جبکہ بعدازاں صدر عارف علوی کی کراچی آمد کی رپورٹس بھی سامنے آئیں۔
گذشتہ روز لاہور میں اپنے وکیل شہباز بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کے سربراہ جلیل کا کہنا تھا کہ پولیس ان کی فیملی کو صدر عارف علوی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملوانے اسلام آباد لے کرگئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ساری رات ہم سے بیان لکھواتے رہے، پھر سارا دن سڑکوں پر گھماتے رہے، پھر معلوم ہوا کہ صدر مملکت تو کراچی اور چیئرمین سینیٹ بلوچستان چلے گئے ہیں۔
خلیل کا مزید کہنا تھا کہ ان کا تماشا بنایا جا رہا ہے، ہمیں فون کرکے ملاقات کے لیے بلوایا گیا تھا، اگر نہیں ملنا تھا تو ہمیں بلایا کیوں تھا، ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
دوسری جانب وکیل شہباز بخاری کا کہنا تھا کہ ملزمان سیکیورٹی حصار میں ہیں جبکہ انہیں کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ وہ 7 دن کا وقت دے رہے ہیں، جے آئی ٹی اپنی رپورٹ مکمل کرے، ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
دوسری جانب ایوان صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ صدر عارف علوی کی سانحہ ساہیوال کے لواحقین سے کوئی ملاقات طے نہیں تھی۔
ترجمان ایوان صدر کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو صدر سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کون لایا، پنجاب حکومت کو اس بات کی تحقیقات کی ہدایت کردی گئی۔
واضح رہے کہ 19 جنوری کی دوپہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور ان کی 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے بھی زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک شخص ذیشان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا۔
دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔