کسی ملک کے بادشاہ نے دو ہیرے منگوائے ان میں سے ایک اصلی تھا اور ایک نقلی،اس نے اپنی رعایا میں اعلان کیا کہ جو کوئی بھی دونوں ہیروں کی درست پہچان کرے گا میں اس کو منہ مانگا انعام دونگااور جو کوئی غلط پہچان کرے گا اس کا سر قلم کردیا جائے گا جیسے ہی یہ اعلان ہوا پورے ملک سے عوام دربار پر حاضر ہوگئی اور ہیروں کی پہچان کے چکرمیں کوئی درجن بھر افراد سر قلم کروا بیٹھے اسی دربار میں ایک اندھا بزرگ بھی حاضر ہوا اور عرض کی کہ وہ ہیروں کی پہچان درست بتا سکتا ہے یہ سنتے ہی دربار میں سکتا طاری ہو گیا بادشاہ بھی حیران ہو گیا کہ ایک اندھا کیسے بتا سکتا ہے ؟یہاں تو آنکھووں والے سر قلم کرواچکے ہیں۔
بادشاہ نے اندھے بزرگ سے مخاطب ہو کرکہا کہ اگر غلط بتائو گے تو سر قلم کردیا جائے گا بزرگ نے کہا مجھے شرط منظور ہے بادشاہ کے مشیر نے ہیروں کی تھیلی بزرگ کے ہاتھ میں تھما دی بزرگ وہ تھیلی لے کر دربار سے باہر چلا گیااس کے جاتے ہی دربار میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کو ئی دوگھنٹے گزرنے کے بعد بزرگ دربار میں واپس آیا بادشا ہ نے مشیر کو بزرگ کے پاس بھیجاکہ دریافت کرے کہ اس نے درست پہچان کی ہے کہ نہیں ۔مشیر کو بزرگ نے ہیرے تھماتے ہوئے کہا کہ میرے دائیں ہاتھ والا ہیرا اصلی ہے اور بائیں ہاتھ والا نقلی بزرگ کا جواب سنتے ہی مشیر کی عقل دنگ رہ گئی کیوں کے بزرگ نے بلکل درست جواب دیا تھا جس پر بادشاہ بھی حیرت سے اپنی کرسی سے کھڑاہو گیا اور بزرگ سے کہنے لگا کہ اس سے بیشتر تم کو انعام کے لیے پوچھا جائے میں اور دربار میں موجود ہر آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ تم نے درست پہچان کیسے کی؟ جس پر بزرگ نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور کہا بادشاہ سلامت ان کی پہچان کرنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی میں نے آپ سے ہیرے لیے اور باہر دھوپ میں چلا گیا دونوں ہیروں کو دھوپ میں رکھ دیا جو ہیرا تھا وہ ٹھنڈا رہا اور جو ہیرا نہیں تھا وہ گرم ہوگیا ۔ بادشاہ اپنے شاہی تخت سے نیچے اترا بزرگ کے ہاتھ چومے اور کہا کہ مانگو کیا چاہیے ؟جس پر بزرگ نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا اور جواب دیا کہ تم مجھے کچھ نہیں دے سکتے ہو اور اگر کچھ دینا چاہتے ہو تو خود کو بار گاہ الہٰی میں دو کیونکہ تم بادشاہ ہو اور تم سے تمھارے اختیارات اوررعایا پر حاکمیت کا جواب طلب کیا جائے گا اس لیے تم کو چاہیے کہ دے سکتے ہو تو اپنی رعایا کو ٹھنڈک دو تاکہ تم اصلی ہیرا ثابت ہو سکو اور ساری رعایا تمھارے زیر سایہ خود کو محفوظ اور پُر سکون محسوس کر سکے۔
19جنوری کو ساہیوال میں ایک بہت دل خراش واقع ہوا جس میں ملک کے ذ مہ دار ادارے سی ٹی ڈی نے کارروائی کی اور یہ کارروئی بدقسمتی سے بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جان لے گئی اس کارروئی میں دو نوجوانوں خلیل اور ذیشان سمیت ایک خاتون اور اس کی تیرہ سالہ بچی کو جان سے مار دیا اس واقع میں دس سالہ عمیر اور اس کی دو چھوٹی بہنیں زخمی ہوئیں اور سب سے تکلیف دہ بات کہ ان بچوں نے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتے اور جان دیتے ہو ئے دیکھا میں جب بھی ان بچوں کو دیکھتا ہوں میری آنکھیںبے ساختہ نم ہو جا تی ہیں مجھ سے ابھی تک عمیر کی پوری ویڈیو نہیں دیکھی گئی جس میں وہ اپنے اوپر ٹوٹنے والی قیا مت کا منظر بیان کر رہاہے یہ بچے اپنی باقی زندگی نارمل گزارنے کے قابل نہیں رہے میری رب کائنات سے التجا ہے کہ وہ ان بچوں کو اور ان کے عزیزوں کو صبرعطا فرمائے اس واقع سے ان کی پوری زندگی متاثر رہے گی بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی حالت دیکھ کر انسانیت بھی شرمند ہو جاتی ہے۔
ناحق خون بہایا گیا ہے اور یہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا ماضی میں سانحہ ماڈل ٹائون،کراچی میں رائو انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ کا قتل اور بہت سے واقعات ہیں جن میں بڑا ظلم ہوا خاص طور پر سانحہ ساہیوال کے واقع کو سوشل اور پرنٹ میڈیا کی وجہ سے عوام تک رسائی حا صل ہوئی ورنہ یہ سانحہ بھی دب جاتاسوشل میڈیا اور دیگر حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ادارے کی کاروائی کا سا را پول کھل کر سامنے آگیا ہے سو ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح حکومت پاکستان کو بھی چاہے کہ وہ پولیس کو ذیادہ پروفیشنل بنائے جب کوئی ایسے مشکوک افراد کے بارے میں معلومات موصول ہوں تو کارروائی کے لیے مجاز اتھارٹی کے واضح آرڈر حاصل ہونے پر کارروائی کرے تاکہ غلط کارروائی ہونے پر ذمہ داروں کا تعین ہوسکے اور آپریشن اس انداز میں ہو کہ مطلوبہ ٹارگٹ کم سے کم نقصان میں حاصل ہوجائے اور متعلقہ شخص کو زندہ حالت میں گرفتار کیا جا سکے اور اگر پھر بھی گولی مارنا مقصود ہو تو گولی پا وں یا ٹانگ میں ماری جائے مگر افسوس صد افسوس ہماری پولیس کو سوائے سیدھے فائر کرنے کے کچھ نہیں آتا۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب الیکشن کے دوران کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات لے کے آئیں گے مگر چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی اصلاحات پیش نہیں کی گئی البتہ بجٹ دو پیش کردیئے گئے ہیں پاکستان میں پولیس کے محکمے سے عوام ہر دور میںپریشان رہی ہے کیونکہ ہماری پولیس آج تک عوام کا اعتماد نہیں جیت سکی کیونکہ اس محکمے میں چند ہی افراد ایماندار ہیں جو ذمہ داری سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں باقی سوشل میڈیا پر بے شمار ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار کس طرح سر عام رشوت ستانی کے مرتکب ہو رہے ہیں آج تک عوام کی جان ومال اور عزت کی محافظ ثابت نہیں ہو سکی ڈھیروں ایسے واقعات ہیں جن میں پولیس نے اپنے اخیتارات کا ناجائز استعمال کیا ہے مگر حکومت کی آشیر باد سے محکمے میں کوئی تبدیلی یا اصلاحا ت نہیں ہوئی اورنہ ہی آج تک کسی اہلکار کو سزا ہوئی ہے۔
سانحہ ساہیوال میں بھی حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی بنائی گئی لیکن اس کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ محکمے کی جانب سے یہ کارروائی مس ہینڈل ہوئی ہے اوراب اہلکاروں کو معطل کرنے سے بات نہیں بنے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیس کو ٹیسٹ بنا کر ان اہلکاروں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کا کوئی واقع پیش نہ ہو۔یہاں پر وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی درخواست ہے کہ مالی امداد اور پھول پیش کرنے سے ذیادہ توجہ لواحقین کو انصاف دلوانے میںصرف کریںاور ذیشان کے حوالے سے بھی جب تک تحقیقات مکمل نہ ہو جائیں اس کو دہشت گرد قرار نہ دیا جائے اس طرح کے بیانات سے لواحقین کی تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ ابھی جوڈیشل انکوائری کا اعلان ہوا ہے اور رپورٹ آنے تک مجرم کا لیبل نہ لگایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی اگر اصلاحات لانے میں دیر ہے تو فوری طور پر ایک آرڈیننس پاس کیا جائے جس کے مطابق ہر تھانے کا انچارج حاضر سروس کرنل یا میجر تعینات کر دیا جائے جو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ حاصل کرے اس سے تھانہ کلچر بھی تبدیل ہو جائے گا اور پولیس کے محکمے میں بہتری آئے گی جبکہ جسٹس گلزار صاحب نے تو واضح طور پر کہا ہے کہ پولیس کا محکمہ ہی بند کر دیںیہ اب حکومت پر انحصار ہے کہ وہ رعایا کو ٹھنڈک دے کر اصلی ہیرا ثابت ہوتی ہے یا پھر خون بہا کر نقلی ہیرا۔