سانحہ ساہیوال ہمارے نطام کے چہرے پر ایک ایک بدنما داغ ہے مگر بلکل ایسے ہی ہے جیسے ہم اس طرح کے واقعات کے اب عادی ہو چکے ہیں یعنی ہمارے نظام کے چہرے پر اس طرح کے داغوں نے اصلی چہرہ ہی چھپا دیا ہے۔ واقعہ ہوتا ہے پوری قوم سکتے میں ہوتی ہے۔ متحد بھی ہو جاتی ہے۔ مزمت ، آہینی ہاتھ، کیفر کردار، عبرت کا نشان وغیرہ جیسے لفظوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اب کچھ نئے لفظ جیسے جے آئ ٹی، فرانزک رپورٹ اور نہ جانے کیا کیا اس کے بعد پھر زندگی معمول پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔ ہاں ہم اتنے بھی سنگ دل نہی ہیں ہر سال واقعہ والی تاریخ پر موم بتیاں، پھول کچھ بیانات ، وعدے اور ۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ افغانستان یا عراق جنگ میں اتحادی فوجوں کے درمیان غلطی سے حملوں (فرینڈ لی فائر) کے دوران خاص طور پر امریکا کو پوری دنیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور اسے اقوام عالم سے معزرت طلب کرنی پڑتی تھی مگر ہمارے ملک میں تو یہ روایت ہی نہی ہے۔ کہنے کو ہمارا نظام جمہوری ہے مگر اس میں جمہوریت کے علاوہ سب کچھ ہے۔
جمہوریت کی قدر پوچھنی ہے تو ہماور تھانوں میں بند قیدیوں سے پوچھو، سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں سے، شناختی کارڈ، بجلی پانی اور گیس کے کے لئے جدوجہد کرتے صارفین سے پوچھو کہ کیا واقئ یہ جمہوری نظام ہے؟۔ کیا جمہوری نظام ایسا ہوتا ہے۔ ظلم تو شاید ساری دنیا میں ہوتا ہوگا مگر ظالم کو سینہ تان کر تکبر اور رعونیت سے آزادی کے ساتھ چلتے پھرتے صرف پاکستان میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
عظیم فلاسفرسقراط جمہوریت کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہمیں سمندر کا سفر کرنا ہو تو جہاز کے کپتان کا چناؤ ووٹ کے زریعے نہی کیا جاسکتا بلکہ جو شخص سمندر کے ماحول اور جہاز کے علم کے بارے میں معلومات رکھتا ہو اسے کپتان بنایا جانا چاہئے۔ یعنی تقریبا 2400 سال قبل دنیا کے عظیم فلاسفر نے جمہوریت اور قابلیت کے درمیان کا فرق ہمیں سمجھایا وہ آج بھی ہمارے حکمرانوں کو سمجھ نہی آیا۔ یعنی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب جو کہ دنیا کے بہت سارے ممالک سے بھی آبادی اور رقبے کے لحاز سے بڑا ہے اس کا وزیر اعلی جمہوری طریقے سے ضرور منتخب کیا گیا مگر اس کی قابلیت یہ تھی کہ وہ ایک چھوٹے علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے اپنے گھر میں بجلی نہی تھی۔ یعنی یہ اس کی قابلیت تھی۔ جس کی بنا پر اسے اتنے بڑے صوبے کا انچارج بنا دیا گیا۔ اس صوبے میں ایک گائے ایک وزیر کے علاقے میں گھسنے پر آئ جی تبدیل ہو جاتا ہے جب کہ وہ علاقہ وزیر کا بھی نہی تھا۔ اسی صوبے میں خاتون اول کی صاحبزادی سے رات دو بجے سوال جواب کرنے پر ڈی پی او کو معطل کر دیا جاتا ہے مگر چاہئے واقعہ ماڈل ٹاؤن کا ہو یا ساہیئوال کا انسانی خون بہانے پر نہ توزمین کانپتی ہے اور نہ ہی آسمان ہلتا ہے۔
لعنت ہے ایسی جمہورت پر سقراط کے مرنے سے پہلے آخری جملے کو غور سے سُننے کے بعد اگر اس سے کچھ سیکھا جائے تو شائد ہمارے حکمران کچھ سیکھ لیں۔ شہرہ آفاق فلاسفر افلاطون جو کہ سقراط کے شاگردوں میں سے تھے وہ استاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سقراط کا آخری جملہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے دوست کرائیٹو کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ “کرائیٹو ہم پر ایک مرغ ادھار تھا، پلیز اسے چکا دینا۔ جس پر کرائیٹو نے جواب دیا تھا کہ میں چکا دونگا۔ دنیا کی سب سے پہلی جمہوریت بھی ان ہی یونانی فلاسفرز کی مرہون منت ہے۔ جمہوریت سے انصاف اور مساوی حقوق کو نکال دیا جائے تو جمہوریت صفر ہوتی ہے۔
انصاف کے لئے عوام کا واسطہ عدالتوں سے پہلے پولیس سے پڑتا ہے۔ مگر پولیس کے حالات، تربیت اور پولیس کے قوانین اس قدر بوسیدہ ہیں کہ ان سے اب بدبو آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں راؤانوار جیسے پولیس افسران کو دلیر، بہادر اور نڈر جیسے خطابات سے نوازاجاتا ہے۔ اور یہ یاد رکھیں کہ راؤانوار ایک نہی ہے بلکہ ہر صوبے میں ایک راؤانوار اور بہت سے اس کے ماتحت ہیں جو جمہوری نظام اور انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کئ سال پہلے کراچی ائرپورٹ کی حدود میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے چار کارکن ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیے گئے۔
فہیم کمانڈو، زیشان حیدر عابدی، یوسف رحمان اور مفیض فاروقی کی لاشیں برآمد کی گئ تو ان چاروں کے ہاتھ پیچھے کی جانب ہتھکڑیوں سے بندھے تھے۔ اور ہم بہت خوش تھے۔ اسی سال یعنی 1995 کو ایک اور پولیس مقابلہ ہوا جس میں ایم کیو ایم کے فاروق دادا، غفار مادہ، جاوید مائیکل اور حنیف ترک جن کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تھا پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ پوسٹ مارٹم میں ڈاکڑز نے کہا کہ ان پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔ پھر ایم کیو ایم کے کارکن اور کراچی کے پولیس افسران قتل ہونے لگے۔ الزام ایم کیو ایم پر لگتا گیا۔ اس ساری کہانی میں ایک شخص جو نا صرف محفوظ رہا بلکہ ترقی کرتا رہا وہ تھا راؤانوار۔ یہ مرتضع بھٹو کے قتل کے وقت بھی اے ایس آئ کے طور پر موجود تھا۔ پھر بوری بند لاشیں، کراچی کے مختلف تھانوں کے پولیس افسران جن میں بہادر علی، چوہدری لطیف اور بہت سے نام شامل ہیں قتل کر دیئے گئے۔
بہادر علی سمیت بہت سے افسران اپنی خُفیہ نکل حمل کے باوجود قتل ہوئے کیونکہ ان کے بارے میں مخبری پولیس کے اندر سے ہی دی جاتی تھی۔ سوائے راؤانوار کے نصیر اللہ بابر آپریشن میں شامل تمام افسران قتل ہوئے۔ ملک کا تین بار منتخب وزیر اعظم جیل میں ہے۔ سابق صدر زیر عتاب ہے، اور بہت سے بڑے بڑے سیاستدان ، صحافی اور بیوروکریٹ عدالتوں اور نیب کے ہاتھوں زلت اٹھا رہے ہیں مگر ایک معمولی ایس ایس پی کو جو نظام ہتھکڑی نہ لگا سکے وہ کیسے منصفانہ نظام ہوسکتا ہے۔ اور ہم کیسے اس نظام میں بہتری کی صورت تلاش کر سکتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں نظام ہی اس معاشرے کے اچھے اور خراب ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم مغرب کی تعریف اسی لئے کرتے ہیں کہ مغرب میں نظام اچھا ہے۔