سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں خشک سالی کے باعث خوراک کی قلت کی وجہ سے تھرپارکر کے باسیوں کے 150 سے زائد شیرخوار بچے زندگی کی بازی ہارچکے ہیںآج جہاں اِس خبر نے ساری پاکستانی قوم کو افسردہ کر دیا ہے تو وہیں قوم کو اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کر ہو گئی ہے،آج تھرپارکر کی شک سالی پر ساری پاکستانی قوم یہ کہہ رہی ہے کہ جو کچھ تھرپارکر میں ہوا ہے، اور ہورہا ہے یقینا یہ سب کاسب ایک دودن کا کام تو ہونہیں سکتا کہ ایسا پلک جھپکتے ہی اچانک ہو گیا کہ آج جس کے بارے میں میڈیا نے بتایا تو ہمارے حکمرانوں کو ہوش آیااور اَب اِنہیں دن میں بھی تارے نظر آنے لگے ہیں اور اَب یہ کسی کھسیانی بلی کے مافق اِدھر اُدھر میڈیاسے اپنا منہ چھپائے پھر رہے ہیں اور کسی کونے کُھدرے میں سر پکڑے بیٹھے یہ سوچنے لگے ہیں کہ سائیں اِنہیں تو خبر ہی نہ ہوئی اور تھرپارکر میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں…؟؟؟ اَب ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ حکومتِ سندھ اور وفاقی حکومت کے بھی ذمہ داروں کے منہ پر کسی زوردار طمانچے سے کم نہیں ہے کہ دونوں نے ہی اِس معاملے سے دیدہ ودانستہ آنکھیں بندر کھیں…؟ اور اپنی اپنی حقِ حکمرانی کے کے مزے لوٹیں رہیں ، جبکہ ہمارامیڈیا عوامی نمائندے کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھانے میں مصروفِ عمل ہے اور وہ سب کچھ سامنے لاتا ہے جس سے حکمران نظریں چراتے ہیں، اور یقینی طور پر ایساہی کچھ سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں آنے والی خشک سالی سے متعلق ہوا ہے۔
آج اِس حوالے سے اطلاعات یہ ہیں کہ ایک ماہ قبل جب سندھ حکومت، سندھ ورثہ اور ثقافت کو روشناس کرانے کے لئے موہنجودڑو فیسٹول کی اُوٹ سے غرق شدہ موہنجودڑو کے مُردوں کو خوش کرنے کے لئے 450 مِلین روپے قومی خزانے سے خرچ کررہی تھی تو اُس وقت بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے محب کرنے والے تھرپارکر کے محب وطن مگرغریب باسی اپنے صحرائی علاقے میں پھیلی خشک سالی کی زرد میں تھے اور جب سندھ حکومت کے ٹھیکیدار 450 مِلین روپے خرچ کرنے کے منصوبے بنا چکے تھے تو تب بھی سندھ حکومت کے ذمہ داروں اور عوامی خدمت کے دعویدار ٹھیکیداروں کی جانب سے تھرپارکر کے باشندوں کے لئے مختص گندم کے ڈھیر صوبائی محکمہ خوراک کے گوداموں میں پڑے پڑے سڑرہے تھے، مگر شاید پھر بھی کسی کو صحرائی علاقے کے خشک سالی زدہ لوگوں کا ذرابھی خیال نہیں آیااور پھر اِیسے میں اِن حکومتی ذمہ داران کی اِسی لاپرواہی اور نااہلی کی وجہ سے تھرپارکر کے باسیوں کے بچے خوراک کی شدید کمی سے مرنے لگے، اَب تک کی اطلاعات کے مطابق تھرپارکر کے خوراک سے محروم باسیوں کے 150 بچے اور شیرخوار سرکاری اسپتالوں میں زندگی سے محروم ہوچکے ہیں جبکہ اِن 150 میں سے کچھ بچے صرف ایک ماہ میں ہی جان بحق ہوئے ہیں۔
اَب اِس موقعہ پر مجھے کو نیل کا یہ قول یاد آگیا ہے کہ” جو بات اخلاقی طور پر غلط ہو اِسے سیاسی طور پر قطعاََ دُرست قرارنہیں دیا جا سکتا”یوں آج یہ بات بالخصوص سندھ حکومت کے ٹھیکیداروں، کرتا دھرتاؤں سمیت سندھ کے عوامی خدمت پر معمور دیگراداروں اور بالعموم وفاقی حکومت کے بند آنکھوں والے ذمہ داران کو بھی تسلیم کر لینی چاہئے کہ یہ دونوں ہی حکومتیں تھرپارکر میں ہونے والی خشک سالی اور اِس کے باعث 150 سے زائد بچوں کی ہلاکت کی بھی ذمہ دارہیں، اور اَب اِن کی عزت اِسی میں ہے کہ سندھ اور وفاق کی حکومت خودہی اپنا احتساب کرتے ہوئے برملا اور بلاروک ٹوک اِس کا اعلان کریں کہ اِن سے حکومتی اُمورمیں کو تاہی ہوئی اور اُنہوں نے اِس جانب ذرابھی توجہ نہ دی بلکہ سندھ حکومت اپنے تئیں یہ بھی اعترافِ جرم تسلیم کرے کہ اِس سے یہ سنگین غلطی ہوئی ہے کہ اِس نے تھرپارکر میں خشک سالی کے معاملے میں دیدہ ودانستہ نظریں چرائی رکھیں اور سندھ ثقافت کو اُجاگر کرنے کو بنیاد بنا کر موہنجودڑو فیسٹول کے نام پر 450 مِلین روپے تو قومی خزانے سے غرق شدہ موہنجودڑو کی مردہ روحوں کو رقص و سرورکا مزادینے کے لئے پانی کی طرح بہادیئے ہیں مگر تھرپارکر کے زندہ اِنسانوں کو خشک سالی کے باعث آغوشِ قبرمیں جانے سے نہ روک سکی ہے، اِس لئے ساری کی ساری سندھ حکومت مستعفی ہوتی ہے، مگر سندھ حکومت میں اتنی جرات کہاں کہ وہ ایسا کرے اگر ایسا کرنا ہوتا تو یہ کب کی ایسا کر چکی ہوتی…؟ مگریہ ایسا کبھی بھی نہیں کرے گے جیساکہ ہم سوچ رہے ہیں کیوں کہ یہ تو آئی ہی عیاشیاں اور مزے لوٹنے کے لئے ہے۔
Sindh Government
اگرچہ سندھ حکومت موہنجودڑو کی قبروں اوراِن قبروں میں صدیوں سے سوئے ہوئے مردوں کے درمیان سندھ ثقافت اور سندھ ورثہ فیسٹول بناکر مُردوں کو خوش کرنے کی آڑ میں خود عیاشیاں نہ کرتی تو ہو سکتا تھا کہ 450 مِلین روپے سے تھرپارکر کے عوام کے آنسو پوچھے جاسکتے تھے اور خشک سالی اور خوراک کی قلت کے باعث جو 150 سے زائدبچے اور جانور مرچکے ہیں اِنہیں سندھ حکومت مرنے سے بچاسکتی تھی مگر افسوس کہ تھرپارکر کی خشک سالی کا المیہ نہ سندھ حکومت کو ہی نظر آیااور نہ ہی وفاقی حکومت کے کرتادھرتاؤں نے اِس جانب کوئی توجہ دی ہے۔
آج اگر میڈیا تھرپارکر کی خشک سالی کواپنی بریکنگ نیوز اور اخبارات اپنی سُرخیوں کی زینت نہ بناتے تو ہمارے حکمرانوں کو تو تھرپارکر کی خشک سالی اور اِس آفت کے باعث 150 سے زائدمعصوم اور شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا بھی پتہ نہ چلتا، اَب ایسے میں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے اور اِنہیںہر اچھے ، بُرے کاموں کی سُجھائی کی ذمہ داری صرف میڈیا کی رہ گئی ہے، تو پھر حکومتی ادارے اور اِس کے کارندے کس مرض کی دواہیں …؟ اگر حکومت اپنے مُلک کے کسی علاقے میں خشک سالی اور قحط کے باعث مرنے والوں کے بارے میں بے خبر رہے… تو پھر ایسی حکومت کا حکمرانی کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ وہ قائم رہے ، موجودہ حالات میں بالخصوص سندھ اور وفاقی حکومت کے اُن ذمہ داروں کو جو دن رات اپنے اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کریہ چیختے پھرتے ہیں کہ اِنہوں نے عوامی خدمت کو اپنے ایمان کا حصہ تصور کر رکھا ہے، اِن کی حکومت میں کوئی غریب بھوکا نہیں سوتا ہے، آج اِن کی حکومت میں مُلک کے ہر غریب کے صحن میں خوشحالی جھوم جھوم کر رقص کررہی ہے، اِنہوں نے اپنی حکومت میں غریبوں سے غربت چھین کر اِنہیں امیروں جیسی زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کر دیا ہے، یہ اِن کا ہی کارنامہِ عظیم ہے کہ اِن کی حکومت میں کوئی غریب بھوکا نہیں مرتاہے، مُلک کے کھیت لہلاتی فصلوں کی مثال قائم کر رہے
ہیں، یہ اِن کی ہی حکومت کا کمال ہے کہ اِنہوں نے کسانوں کو صاحب اختیار بنا دیا ہے اور کسانوں کو اِس قابل کر دیا ہے کہ یہ اپنی صلاحیتوں سے کھیتوں میں اناج کی دگنی فصلیں پیدا کر رہے ہیں، آج مُلک میں اناج کی کوئی کمی نہیں ہے ، ہر شہری کو ہر سطح پر اناج آسانی سے دستیاب ہے، یہ اِن کی حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ اِن کی حکومت میں مُلک میں پیدا ہونے والاا ناج اپنی ضرورتوں کو پور کررہا ہے اور اَب اِن کی حکومت اپنی اناج کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد بیرونی ممالک بھی بھیج رہی ہے جس سے مُلک میں زرِمبادلہ آرہا ہے اور مُلک معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہورہا ہے اور وغیرہ وغیرہ … یہ ایسے بہت سے جملے ہیں جنہیں ہم روزانہ میڈیاپر سُنتے اور اخبارات کی خبروں میں پڑھتے ہیں۔
مگر درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے جس کا حکمران میڈیامیں دعوے کرتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے اِن جھوٹے ، عیار اور مکار حکمرانوں کے دورِ اقتدامیں سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں خشک سالی نے تباہی مچارکھی ہے مگر ہمارے بے حس حکمرانوں کو اِس کی خبرتک نہ ہوئی ، یہ تو کہیں سندھ ثقافت تو کہیں پنجاب یوتھ فیسٹول پر اپنی عیاشیوں کے بہانے ڈھونڈتے رہے اور قومی خزانے سے اربوں اور کھربوں لٹاتے رہیں اور مُلک کے غریب عوام روٹی سے محروم رہ کر ایڑیاں رگڑرگڑ کرمرتے رہے اور حکمران سب ٹھیک ہے کی چین کی بانسری بجاتے رہے۔ لہو کورنگ، گلابوں کو خارکہتے ہیں یہ کیسے لوگ خزاں کوبہارکہتے ہیں میں کیسے اِن کو گُلستاں کا پاسباں سمجھوں جو آندھیوں کو نسیمِ بہار کہتے ہیں
جبکہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اللہ صداخوش رکھے بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین محترم المقام عزت مآب جناب ِ قبلہ حضرت سائیں مَلک ریاض حُسین صاحب کا کہ جنہوں نے تھرپارکر کے خشک سالی سے بدحال اپنے غیوراور محب وطن پاکستانی بھائیوں کی تکالیف کا دردمحسوس کیا اور اُنہوں نے فوراََہی اللہ کی اپنے ذمہ دی ہوئی دولت سے 20 کروڑ کی کثیر رقم تھرپاکرکے بھائیوں کی مددکے لئے دینے کا اعلان کرکے اپنے پاکستانی بھائیوں سے محبت کا ثبوت دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ اِن کے دل میں اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے اپنے حکمرانوں سے بڑھ کر محبت ہے جبکہ حکومت سندھ کے ذمہ داروں کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اَنہوں نے تھرپارکر کی خشک سالی سے متعلق میڈیا پر خبر آجانے کے بعد صرف ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی اور اِس میں بھی میڈیا پر سنزکے سوالات پر برس پڑے اور اُنہوں نے ایسا کرکے یہ سمجھ لیا کہ اُنہوںنے تھرپارکر کے مصیبت زدہ بھائیوں کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور بس ….!! جبکہ اَب تک ہماری وفاقی حکومت کی جانب سے خالی بیانات جاری ہونے کے کچھ بھی ایسانہ ہو سکا ہے جس سے تھرپاکر کے پریشان حال عوام کی دادرسی کی کوئی کرن دکھائی دے۔