تحریر : ساحل منیر بات اگر عام حالات میں بیگم کلثوم نواز کی صحتیابی کے لئے سینٹ انتھونی چرچ میں منعقدہ دعائیہ تقریب تک محدود ہوتی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا اور اسے انسانی دوستی و بین المذاہب ہم آہنگی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا تھا ۔لیکن چرچ انتظامیہ کے زیرِ سرپرستی ایک دعائیہ تقریب کے نام پرمسیحی عبادت گاہ میں حلقہ این اے 120 کی مسلم لیگی امیدوار کے حق میں جس بھرپور و منظم سیاسی مہم جوئی کا نمونہ پیش کیا گیا اسے مسیحی حلقوں کے لئے کسی صورت بھی قابلِ ستائش امرقرار نہیں دیا جا سکتا۔اس موقع پر شرکاء تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ آپ کے لئے نواز شریف اور کلثوم نواز کا پیغام لے کر آئی ہوں ۔ہم سب کے دکھ سانجھے ہیں ،ہم سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان میرا بھی اتنا ہی ملک ہے جتنا آپ کا۔این اے 120میں مجھ پر سب سے زیادہ پھول نچھاور کرنے والی مسیحی فیملی تھی۔
میرے لئے شفقت پر مسیحی برادری کی شکرگزار ہوں۔مسیحی برادری کی محبتیں لازوال ہیں ۔مجھے آپ پر فخر ہے۔آج نواز شریف کا مقدمہ آپ کی عدالت میں لے کر آئی ہوں۔علاوہ ازیں مریم نواز شریف نے مخالفین سے کہا کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کرو،آنکھیں کھولو ،نواز شریف کے ساتھ پورا پاکستان ہے۔اس تقریب سے مریم نواز کے سیاسی خطاب سمیت دیگر حالات و واقعات بتاتے ہیںکہ یہ تقریب ایک خالصتاً سیاسی ایجنڈے کے تحت منعقد کی گئی جس میں کاتھولک چرچ جیسے مضبوط مذہبی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے حلقہ کے مسیحی ووٹرز کو ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز شریف کی حمایت کی ترغیب دی گئی۔
اس سلسلہ میں متناسب نمائندگی کے غیر جمہوری وناپسندیدہ طرزِ انتخاب کی پیداوار حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے اقلیتی نمائندگان و دیگر مقامی مسیحی قیادت نے چرچ کو کھلم کھلاسیاسی مقاصدکے حصول کا ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ کر کے نہ صرف عام مسیحیوں کے مذہبی تحفظات و خدشات کو ہوا دی ہے بلکہ چرچ انتظامیہ کیلئے بھی گوناگوںمسائل پیداکر دیے ہیں۔اگرچہ پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی حرکیات کے تناظر میں چرچ کے کردار کوہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ماضی میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جب چرچ اور اس سے منسلک ادارے مختلف اقلیتی امیدواران کی پشت پر کھڑے دکھائی دیے۔لیکن نہ تو ماضی کی اس غیر صحتمندانہ روایت کوقابلِ رشک قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حالیہ واقعہ کو۔اس کھلے تضاد کی کیا توجیح پیش کی جا سکتی ہے کہ ا یک طرف تو مسیحیوں کے سیاسی و مذہبی رہنما نظامِ حکومت میںسیاست اور مذہب کے اختلاط کی مخالفت کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی وقتی مفادات کے لئے مذہب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاسی مفادات و وابستگیوں سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا اور اپنی اپنی پسند کی سیاسی جماعت میں شمولیت اس کے منشور و ایجنڈے کی حمایت اور عملی سرگرمیوںمیں فعال کردار ادا کرنا ریاست کے شہریوں کا بنیادی حق ہے ۔مگر سیاسی عزائم کے لئے مذہب کا استعمال قطعی طور پر درست و پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی حرکیات میں چرچ کی اسی قسم کی بالواسطہ یابلاواسطہ مداخلت کی وجہ سے ہی نہ تو آج تک مسیحیوں کی کوئی قابلِ ذکر سیاسی جماعت اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکی ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی قیادت۔اس خطہء ارضی کے مسیحیوں کی تعلیمی، مذہبی و سماجی ترقی کے ضِمن میں بلاشبہ چرچز کا مثالی کردار ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جس پر بجاطور پر فخر کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی چرچز کی انہی تعلیمی، مذہبی و سماجی خدمات کا تسلسل وقت کا اہم تقاضا ہے نہ کہ کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کا حصہ بن کر اپنے کردار پر سوالیہ نشان ثبت کروانا۔بدیں وجہ چرچ اکابرین سے درد مندانہ استدعا ہے کہ اپنے آپ کو اس سیاسی مہم جوئی و محاذ آرائی سے دور رکھیں اور جن لوگوں کے مفادات اس کام سے جڑے ہوئے ہیں انہیںیہ کام اپنی بساط کے مطابق کرنے دیں۔اس وقت لاہور کے انتخابی معرکے میں مسیحی ووٹرز واضح طور پر مختلف سیاسی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔لہذا چرچ پلیٹ فارم سے کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کلیسیائی سطح پر مسائل و مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔