تحریر : واٹسن سلیم گل بچپن میں اسکول جاتے وقت ہمیں تھوڑے سے پیسے ملتے تھے جس سے میں گلی کے نکڑ پر موجود کھوکھے سے یونین کے بسکٹ خریدتا تھا۔ ایک پیسے کا ایک بسکٹ تھا دوآنے میں جیب بھر جاتی تھی۔ اس کے علاوہ جو سستی چیز ملتی تھی وہ ریوڑیاں یا گڑ اور موم پھلی سے بنی ٹافی ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جس بچے کی جیب میں یہ چیزیں موجود ہوتی تھی تب تک اس بچے کا حلقہ احباب وسیع ہوتا تھا جیسے ہی اس کی جیب ہلکی ہوتی تھی تو دوست پارٹی تبدیل کر لیتے تھے۔ ایک اور بات جو مجھے یاد ہے کہ جس دوست کی جیب میں ٹافیاں ہوتی تھی اسکے بہت سے دوست ہوا کرتے تھے اس کا دوست میرا دوست اور اس کا دشمن میرا دشمن ہوا کرتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے ایک ایسے دوست کی لڑائ ہو رہی تھی جس کی جیب میں ٹافیاں تھی۔ اور میں اس کی طرفداری کررہا تھا۔ جس سے لڑائ ہورہی تھی وہ بھی ہمارا دوست ہی تھا مگر خالی جیب والا، اس نے سب کے سامنے مجھے یہ طعنہ دے دیا کہ جس کی جیب میں ٹافیاں ہوتی ہیں تم اس کا ساتھ دیتے ہو مجھے یاد ہے کہ میں بہت چھوٹا تھا مگر یہ بات سن کر سخت شرمندہ ہوگیا۔ اور دوبارہ دوسروں کی ٹافیوں پر نظر نہ رکھنے کی قسم کھا لی جس پر آج تک قائم ہوں۔ انسان کی عزت اور اقدار اس کا سرمایہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنی اور معاشرے کی نظر میں اپنی قدر اور وقاربناتا ہے۔ یہ ایک عام انسان کی بات ہے۔مگر میں کچھ خاص انسانوں کے رویوں سے حیرت زدہ ہوں جو کہ باکستان کے سب سے بڑے ایوان میں پہنچے ہیں۔
جنہوں نے سینٹ میں پہنچنے کے لئے کروڑوں لیکر اپنے ضمیر بیچ دئے اور ان کو اس پر کوئ شرمندگی بھی نہی ہے۔ گزشتہ دنوں سینٹ کے انتخابات میں جو شرمناک کھیل کھیلا گیا وہ ہمارے ملک کے سیاسی نظام پر ایک بدبودار داغ چھوڑ گیا ہے جس سے نظریں چرائ جارہی ہیں۔ اس کھیل کا آغاز بلوچستان سے فرشتوں نے کیا اور آصف زرداری جو کے گھوڑوں کی ٹریڈینگ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اسے اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ وہ جانتے نہی ہیں کہ ڈاکٹر آصم ، شرجیل میمن اور عزیر بلوچ کے ساتھ راؤانوار بھی ابھی زندہ ہے اور جس طوطے میں زرداری کی جان ہے وہ طوطا فرشتوں کے ہاتھ میں ہے۔ ویسے بھی جو لوگ چند روپئوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں ان کو ہارس کہنا گھوڑوں کی توہین ہے۔ کیا ان کو کھوتا (گدھا) کہا جائے تو میرے نزدیک تو یہ کھوتوں کی بھی توہین ہے کیوں کہ گدھا بھی اپنی جسمانی محنت سے اپنے مالک کا اور پھر اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ کتا ؟؟ نہی وہ بھی وفادار جانور ہے۔ تو اس طرح کے لوگوں کو کس نام سے پکارا جائے۔ سینٹ کے موجودہ الیکشن میں جو شرمناک کھیل ہوا ہے اس سے ہمارے ملک کی بدنامی ہوئ ہے ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ کون کون سے ممبران بیچے گئے اور کن خریداروں نے ان کو خریدا ۔ کیوں اس بات کو نظرانداز کیا گیا کہ جو لوگ اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں کیا وہ 62،63 پر پورے اترتے ہیں کیا وہ صادق اور امین ہیں۔
اگر نہی ہیں تو پاکستان کے سب سے بڑے ایوان میں بیٹھ کر وہ اس ملک کا کیا حشر کریں گے سینٹ کے الیکشن سے چند ماہ قبل ایم کیو ایم کے دو ٹکڑے ہوئے پھر بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کا صفایا ایک ہی پلان کا حصہ تھے۔ کس طرح ممکن ہے کہ ایک باکردار شخص اپنا ضمیر بیچ کر بھی میڈیا پر بیٹھ کر اپنی خباثت کا دفاع کرے۔ ایم کیو ایم کی دو خواتین نے ایم کیو ایم چھوڑ دی یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ان خواتین کا پیپلزپارٹی کے ہاتھوں بک جانا اور پھر اس کا باقائدہ دفاع کرنا بےشرمی کی بات ہے۔
عمران خان کی سیاست مجھے کبھی بھی سمجھ نہی آئ میڈیا پر پیپلزپارٹی کے بارے میں جو زبان استمال کرتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ پھر اسی پیپلزپارٹی کے نمایندے مانڈوی والا کو ڈپٹی چئیرمین کے لئے لائن بنا کر ووٹ بھی دیتے ہیں۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انہوں نے سینٹ میں ن لیگ کا راستہ روکا۔ اس بات پر مجھے ففٹی ففٹی کی ایک قسط یاد آگئ جس میں پولیس ایک چوکی پر گاڑیوں کی تلاشی لیتی ہے کہ کوئ اسلحہ تو نہی ہے وہ گاڑی کی مکمل تلاشی لتے ہیں مگر ان کو گاڑی کی چھت پر لگی توپ نظر نہی آتی۔ عمران خان نے سینٹ کے الیکشن کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اپنے 16 اراکین اسمبلی پر خود نہ صرف الزام لگایا بلکہ ان کے خلاف کاروائ کرنے کا فیصلہ بھی کیا مگرصبح ہوتے ہی ان کی آنکھ ُکھل گئ اور پھر ان 16 بکاؤ اراکین کو چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے کھیل کے لئے اپنی مرضی سے استمال بھی کیا۔ ۔ سپریم کورٹ سینٹ کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر خاموش کیوں ہے سمجھ سے باہر ہے کیونکہ سوائے پیپلزپارٹی کے تمام سیاسی جماعتوں نے بڑے زوروشور سے سینٹ الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا یہ الزامات بہت سنگین ہیں ان الزامات پر ایکشن ہونا ضروری تھا۔
پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے نے پاکستان کی معشیت پر بھاری بوجھ ڈالا ہے۔ اور ملک میں عدم استحکام کی صورتحال کے سبب حالات مضید خراب ہونے کے چانسس ہیں۔ کہنے کو تو ن لیگ کی حکومت ہے مگر احکامات کہیں اورر سے آرہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان حالات کا زمہ دار کون ہے مگر کسی میں بھی ہمت نہی ہے۔ نگران حکومت کون سی ہوگی؟۔کس کی ہوگی؟ الیکشن میں ہونگے بھی یا نہی، ہونگے تو کیا کسی کو بھی اکثریتی حکومت بنانے دی جائے گی یا پھر ایک بار پھر مخلوط حکومت بنی گی جو نہ تیری ہوگی اور نہ میری ہوگی۔ اور اگر ایسا ہوگا تو پھر اگلے پانچ سال بھی عوام کو یہ ہی تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ ان حالات میں تبدیلی مجھے اس لئے نظر نہی آرہی ہے کہ قوم منتشر ہے۔ سندھ والے، پنجاب والے خیبرپختون خواہ اور بلوچستان والوں میں اتحاد نہی ہے اس لئے انقلاب کا خواب دیکھنا دیوانے کے خواب جیسا ہی ہی۔(یعنی نہ کھیڈا گے نہ ہی کھیڈن داں گے (نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دے گے)