تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری سینٹ کی 52 نشستوں کے انتخابات مکمل ہو چکے مگر کرپشن کی مُحیر العقول کہانیاں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتیں اور یہ ہمارے سیاسی جوہڑ کے انمٹ قصے بن چکے ہیں خود عمران خان فرماتے ہیں کہ انہیں ایک سیٹ کے لیے 40 کروڑ روپوں کی پیشکش کی گئی یہ تو عذر گناہ بدتراز گنا ہ کا روگ لگتا ہے جب انہوں نے خود ہی ارب پتی امیدواروں کو کے پی کے میں ٹکٹ بانٹے تھے تو اب اس کے جیتنے والے پانچ ممبران سینٹ بھی ان کے ہی صوبائی ممبرز کو”مکمل خوش ” کیے بغیر کیسے ووٹ لے سکتے تھے یہاںتک کہ آخری سینٹ انتخاب کے لیے بلوائے گئے صوبائی ممبران کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے61میں سے صرف 44 ممبران موجود تھے تو بقیہ کیا شام غریباں منانے گئے ہوئے تھے ؟یا پھر ” مال متال” اکٹھا کرکے سہانی راتیں گزارنے میں مصروف تھے اس طرح ان کا ایک مزید ممبر کا منتخب نہ ہو سکنا واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس کے ممبران اسمبلی ہی اس کی موجودگی کے باوجود اپنی قیمت لگواکر منہ سیاہ کرگئے اسی طرح کے پی کے میں صرف 7ممبران اسمبلی رکھنے کے باوجود پی پی پی دو ممبران سینٹ کیسے منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی؟
مکمل واضح ہے کہ یہ صرف “زرداری کا کمال”ہے اور ان کا”خفیہ کرشمہ “ہی سنا جارہا ہے کہ ایک ایک ووٹ کے لیے کروڑوں کی رقوم بانٹی گئیںاور تو اور ن لیگ کے ممبران اسمبلی بھی کم تھے مگر وہ بھی کے پی کے میں سینٹ کی دو سیٹیں” دھاڑا ماشا “فرما کر لے اڑے۔ پنجاب میں جہاں صرف ن لیگ کے ہی حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوسکتے تھے مگر سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ برائے سینٹ حاصل کرتے ہی “جوڑ توڑ کا کمال “دکھا دیا۔ راوی بتاتے ہیں کہ ان کا لندن میں اربوں ڈالرز کا کاروبار ہے اور ان کے لیے ایک سیٹ جیت جانامعمولی بات تھی تیس ممبران پی ٹی آئی کے ہیں انہوں نے سب سے زائد یعنی44 ووٹ حاصل کرلیے یہ ان کی “ماورائی شخصیت” اور “سرمایہ کا چھو منتر “نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟
کمال تو یہ ہے کہ پی پی پی کے آٹھ ممبران اسمبلی بھی” خفیہ طور پر “ووٹ ڈال گئے اور ن لیگیوںمیں سے بھی کئی ایک “دیہاڑیاں ” لگا گئے بحر حال یہ چوہدری سرور کا ہی کمال تھا جس نے ن لیگ کو یہاں ایک سیٹ نکال کر چاروں شانے چت کر ڈالا کہ ابھی تک ان کے ممبران کا رونا دھونا ختم نہیں ہو رہا۔فاٹا کے چار آزاد امیدواران تو ہر دفعہ اربوں کا کھیل کھیلتے ہیں جسے کوئی انتظامی طاقت روک نہیں سکتی کہ” میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ” کی طرح وہاں تو بڑے نوٹ ترازو میں تول کر کام دکھاتے ہیں اور یہ سب اس وقت تک جاری رہے گا جب تک الیکشن کمیشن ہی انتخابی طریق کارکوشوآف ہینڈ سے تبدیل نہیں کر ڈالتا مگرہر دفعہ تنقید کیے جانے کے باوجود انتخابی عمل میں کوئی تبدیلی نہ کرسکنا بھی اندرون خانہ الیکشن کمیشن پر بھی سوال چھوڑ جاتا ہے کہ “چور چوری کر ہی نہیںسکتا جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو”کے مصداق یہاں بھی انتخابی طریق کار میں کوئی تبدیلی نہ ہو سکنے کی وجہ بھی “چمک “کا شور و غوغانظر آتی ہے۔
سندھ میں تو زرداری صاحب حکمران تھے وزیر اعلیٰ ہائوس ہی میں ایم کیو ایم کی خواتین مہمان بن بیٹھیں کہ کوئی کسی عورت کو اغوا کرکے نہیں لے جاسکتاجب تک کہ اس کی اپنی مرضی اس میں شامل نہ ہو پھر ایم کیو ایم جو کہ کم ازکم چار سیٹیں جیتنے کی دعویدار تھی وہ صرف ایک سیٹ ہی چھ بارووٹوں کی گنتیاں کروانے کے بعد جیت پائی ہے اور فنکشنل لیگ کا واحد ممبر سینٹ بھی سندھ سے منتخب ہو نا پیرا پگاڑا کی کرشماتی شخصیت کی بدولت ممکن ہو ا مگر کوئی گھر میں آتے مال کو کیسے ٹال سکتا ہے کہ آجکل سیاست صرف پیسے کمانے کا ہی واحد “باعزت کاروبار” بن چکا ہے ایم کیو ایم کے نام نہاد نظریاتی ایم پی اے کاغذی جہازوں کے پتنگوں کی طرح اڑتے نظر آئے سب کچھ کرنے کے باوجود ان کے لیڈرز سرمایوں کی ہوائوں میں اڑتی ان کی پتنگوں کو نیچے نہ اتار سکے کہ بالا پروازوں پر اڑنے کے لیے ان کی ڈوروں میں اصل مانجھا لگ چکا تھا بحر حال جس نے مال زیادہ لگایا”اس بازار “کی مٹیار کی طرح اسی پیا کو وہ سدھا ر گئی ۔زرداری صاحب کی پارٹی نے کھل کر”کھیل تماشا” کھیلا اور بھرپور کوشش کی اس لیے وہی “کامیاب خریدار” ٹھہرے۔ دوسرے بھی کم نہ رہے مگر چمپئن شپ زرداری سب پر بھاری کی طرح انہی کے ہاتھ رہی کہ انہوں نے قطعاً “کفایت شعاری “سے کام نہ لیا ۔بلوچستان اسمبلی کے قصے کہانیاں سنیں تو ہاتھ کانوں کو لگانے پڑتے ہیں غرضیکہ اب جیتنے والے “کھلاڑی” کس طر ح اربوں روپے جلد ازجلد پورے کریں گے یہ انہی کا کمال ہو گا کہ وہ مال گھسیٹنے کے فن سے بخوبی واقف ہو ں گے کہ کوئی سوداگر گھاٹے کا سودا کبھی نہیں خریدتا۔
نتیجتاً ن لیگ33،پی پی 20،پی ٹی آئی12سیٹیں حاصل کرسکی ہے اور تینوں ہی سینٹ کی چئیر مین اور وائس چئیر مین شپ ہتھیانے کے لیے انہوں نے دوبارہ گھوڑے بحر ظلمات میں دوڑادیے ہیں اس گھوڑا گدھا ٹریڈنگ میں کون کامیاب ٹھہرتا ہے وہ وقت ہی بتائے گامگر یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ بھاری رقوم لگا کر جیتنے والے اب بغیر منافع کے ووٹ دیں یہ سرمایہ کے دنیاوی اصولوں کے خلاف ہو گاگھمسان کا رن پڑے گا اور کھلم کھلا بولیاں لگیں گی سرمایہ دارانہ ناسور کی جنگ میں کون کامیاب ٹھہرتا ہے؟ وہ مستقبل میں پتا چل سکے گا بحر حال ہمارے غلیظ سیاسی جوہڑ میں سبھی راہنمایان ڈبکیاں لگاتے نظر آتے ہیں کہ”جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا”کی طرح مال اِدھر اُدھر خفیہ ہی ہو گا اور ان رازوں کی کہانیاں آہستہ آہستہ مستقبل قریب میں کھلتی رہیں گی مگر سکہ بند کھلاڑی مقتدر ہو چکے ہوں گے اور ہم اور آپ ان کا کچھ بھی تو بگاڑ نہ سکیں گے۔