صوبہ سندہ اولیا کرام باکمال بزرگوں درویشوں اور سچے عاشقوں کی سر زمین سمجھی جاتے ہے۔ عادل مغل

سانگھڑ سندہ (عادل مغل) صوبہ سندہ اولیا کرام باکمال بزرگوں درویشوں اور سچے عاشقوں کی سر زمین سمجھی جاتے ہے ضلع سانگھڑ میں جہاں خدا کے ان نیک بندوں کے مزارات ہیں وہاں تاریخ میں داستان عشق رقم کرنیوالے سوہنی اور مہنیوال کے مقبرے بھی ہیں ضلع سانگھڑ کے تعلقہ شھدادپور کو سوہنی مہنیوال کا شہر بھی کہا جاتا ہے جھاں آج سے کئی سالقبل دریائے سندھ کی تیز رفتار وتندہرون میں کچے گھر پر تیر کر اپنی محبت کی انمول داستان رقم کی مہنیوال کا مقبرہ آب آبادی کے بالکل درمیان میں آ چکا ہے اور شہریوں نے آس پاس بڑی بڑی عمارتیں قائم کرلی ہیں۔

اپنے دور محبت کے ہیرو مہنیوال کے مقبرے کی ھالت انتہائی خستہ ہے عجیب ویرانی ہے مقبرے کے اندرونی حصہ میں صفائی نا ہونے کے باعث گندگیکے ڈھیرلگے ہوئے ہیں جبکہ بجلی کا انتظام بھی ہونے کے برابر بجلی کے بورڈ اور تیوب لائیٹس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں لیکن اب بھی سیکڑوں افراد اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے یہاں آتے ہیں اورچراغ جلاتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں لیکن مقامی انتظامیہ کی عقیدت کے عدم توجہ کے باعث مقبرے کی ترتیں و آرائش نہیں کی جا سکی مقامی انتطامیہ کے احاطے میں ایک سیور ٹیوب لائیٹ لگائی گئی ہے جس پر ناظم کی تختی لگی ہوئی ہے ۔دوسری جانب شہدادپور سے منصل مقصودورند روڈ پر سوہنی کا مقبرہ قائم ہے جسکی حالت بھی قابل رحم ہے یہاں چند سال قبل مسیحو عربغں میدان میں ہوتا تھا اور چنہ قریں ہوتی تھی لیکن اب قبروں کی تعداد بھی زیادہ ہو چکی ہے اور اس زمین پر لینڈ مافیا قابض ہو چکے ہیں۔

پختہ گھر تعمیر ہو چکے ہیں جبکہ سوہنی کے مقبرے کی حالت بھی خستہ ہے صفائی کا بالکل انتظام نہیں ہے اور ناہی پانی کا انتظام ہے پینے کے پانی کی دو نادیان رکھی گئی جہان سے مقبرے پے آئے عقیدت مند پانی پیتے ہیں صوبہ سندہ کے دور دراز علائقوں اور پنجاب سے زیادہ لوگ یہاں ااتے ہیں مقبرے پر آنیوالے سیکڑوں افراد یہاں اپنی من کی مرادین پوری ہو نیکی بھی مانتے اور بعض ایک اپنے نام بھی نقش کرتے ہیں اور من کی مراد ہوری ہونے پر یہ لوگ یہاں نیاز دینے آتے ہیںیہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے سوہنی اور منہیوال پر بھت سے شعراء نے اپنے کلام لکھے اور آب تک بھی عشق کی دنیا میں ان کا نام زندہ ہے ان کا پیارامر تھا ان سچے عاشقوں محبت کی داستانیں ہماری کتابوں میں تو زندہ ہیں لیکن انکی آخری آرامگاہ انتہائی قابل رحم ہیں انکے مقبرے ایک تاریخ اہمیت رکھتے ہیں لیکن انتظامیہ کی عدم توجہ کے باعث ممکن ہے کہ مزید چند سالون میں ان کی نقوش بھی مٹ جائیں سوہنی مہنیوال کا آبادی گاؤں کہاں ہے اور یہ شہداپور کیسے پہنچے یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن اب انتظامیہ کو چاہئے کہ ان دونوں مقبروں کو محکمہ اوقاف کے انڈر دیتے ہوئے مقبروں کی نئی سر سے تعمیر کرے مقبروں کی زمیں ہر لینڈ مافیا کا قبضہ ختم کراتے ہوئے بجلی پانی کا انتظام کرے تاکہ یہاں آنیوالوں کو ایک خوبصورت پبلک مقام میسر آ سکے۔

موجودہ ضلعی کی حکومت کے ایوان میں سوہنی مہنیوال کے مقبروں پر بجیٹ ہو چکی ہے اور ضلعی ناظم خدا بخش راجڑ نے مقبروں کا معائنہ کیا تھا اور ناجائز ایکڑ و جنہنٹ ختم کروانے کے اور مقبروں کی تربیت و آرائش کے لئے فنڈ جاری کرنیکا اعلان بھی کیا تھا لیکن تا حال عملدار آمدنا ہو سکا ضلعی حکومت صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو ان تاریخی مقبروں کو قائم رکھنے کیلئے اقدامات کرنیکی ضرورت ہے۔