تحریر : محسن فارانی مئی 1799ء میں سلطان ٹیپو شہید ہو چکے تھے۔ ان کے بعد انگریزوں نے مرہٹوں کی طاقت توڑ کر 1803ء میں دہلی پر قبضہ کر لیا اور شاہ عالم ثانی انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا۔ یوں ہندوستان پر برطانوی حکومت کا آغاز ہوا جبکہ 1799ء میں رنجیت سنگھ لاہور پر قابض ہو کر ایک مضبوط سکھ ریاست قائم کر چکا تھا۔ان تیرہ و تار حالات میں سید احمد شہید نے مسلمانوں کی دینی اصلاح کے ساتھ ساتھ جہادی تنظیم قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شاہ عبدالعزیز انہی دنوں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دے چکے تھے۔ دہلی میں انہیں خانوادہ شاہ ولی اللہ کے دو ممتاز عالم شاہ اسماعیل اور مولانا عبدالحی مل گئے اور وہ روہیل کھنڈ، آگرہ، اودھ، (یوپی) کے مختلف شہروں کے دورے کر کے دینی اصلاح اور تنظیم جہاد کا کام کرتے رہے۔ شاہ اسماعیل عقیدہ توحید پر ”تقویة الایمان” نامی کتاب لکھ کر ہندوستان میں شرک و بدعت کی جڑ کاٹ چکے تھے۔ سید احمد نے نکاح بیوگان کا اجراء کیا جسے مسلمان شرفاء باعث ننگ سمجھنے لگے تھے۔ خود سید صاحب نے اپنی بیوہ بھاوج سے نکاح کیا وہ اپنے مریدوں کو فنون جنگ کی تربیت بھی دیتے رہے۔
حج بیت اللہ کے بعد سید صاحب 2 اپریل 1824ء کو وطن واپس پہنچے پھر ہمہ تن جہاد کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور پھر طے پایا کہ علاقہ سرحد کو مرکز بنایا جائے کیونکہ رنجیت سنگھ کی حکومت نے پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی، یہاں تک کہ لاہور کی شاہی مسجد پر سکھوں کا قبضہ تھا۔ مسجد کے حجروں میں سکھ فوجی رہتے تھے اور مسجد کے صحن میں گھوڑے باندھے جاتے تھے۔ عملی اقدام سے پہلے شاہ اسماعیل پنجاب کے خفیہ دورے پر آئے اور خود مشاہدہ کیا کہ سکھا شاہی میں مسلمان کس قدر مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔گوالیار، ٹونک، اجمیر، حیدر آباد (سندھ)، شکار پور، کوئٹہ، قندھار، غزنی، کابل اور جلال آباد سے ہوتے ہوئے مجاہدین پشاور پہنچے۔ ادھر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بدھ سنگھ کو دس ہزار فوج دے کر اکوڑہ بھیج دیا تھا۔ 20دسمبر 1826ء سید احمد کے 900 غازیوں نے شب خون مار کر سات سو سکھ موت کے گھاٹ اتار دیئے
جبکہ مسلم شہداء کی تعداد صرف 36 تھی۔ اس کامیابی کے بعد علماء اور خوانین نے 11 جنوری 1827ء کو ہنڈ کے مقام پر سید احمد کے ہاتھ پر امامت جہاد کی بیعت کی۔ ان میں پشاور کے سردار یار محمد خان اور سلطان محمد خان بھی شامل تھے۔ سکھوں سے لڑنے کے لئے ایک لاکھ کے قریب مجاہدین جمع ہو گئے لیکن یار محمد غدار نکلا۔ لڑائی سے ایک رات پہلے اس نے سید صاحب کو زہر دلوا دیا جس سے آپ علیل ہو گئے۔ اگلے روز لڑائی میں سکھوں کے پائوں اکھڑنے لگے تو یار محمد اور اس کے بھائی شکست شکست کا شور مچاتے ہوئے میدان سے بھاگ نکلے۔ اس طرح غازیوں کی فتح شکست سے بدل گئی۔ اب سید صاحب نے پنجتار (خدوخیل) کو مرکز بنایا۔ بونیر و سوات کا دورہ کیا، دریں اثناء ہندوستان سے مجاہدوں کے قافلے آگئے۔ پشاور و مردان اور کوہستان سے بھی کثیر تعداد میں لوگ ساتھ آ ملے۔ غازیوں نے سکھوں کو ڈمگلہ اور شنکیاری میں شکستیں دیں۔ خالص اسلامی ریاست قائم ہونے کے روشن امکانات تھے لیکن درانی سرداروں کی شرانگیزی کے باعث تحریک میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگیں۔
Sultan Muhammad
ان کے اکسانے پر بعض اور خوانین نے بھی منافقت کی روش اختیار کر لی۔ شعبان 1244ھ فروری 1829ء میں سید صاحب نے اڑھائی ہزار علماء و خوانین کو مرکز پنجتار میں جمع کر کے نظام شریعت کے نفاذ پر بیعت لی لیکن غداروں نے کام خراب کر دیا۔ ہنڈ کا رئیس خادے خان سکھوں سے مل گیا، وہ انہیں پنجتار پر چڑھا لایا لیکن سکھ فوج کے سالار کو لڑائی کی ہمت نہ پڑی۔ سید صاحب نے منافقین سے نمٹنے کے لئے پہلے ہنڈ فتح کیا، پھر درانیوں کے بھاری لشکر کو شکست دی جس میں یار محمد خان مارا گیا۔ اس کے بعد مجاہدین نے امب پر قبضہ کر لیا۔ نیز مردان کے قریب سلطان محمد اور اس کے بھائیوں کے لشکر پر کاری ضرب لگا کر مردان اور پشاور فتح کر لئے۔ اب سلطان محمد نے صلح کی درخواست کی سید صاحب نے جہاد میں امداد کے وعدے پر پشاور اس کے کنٹرول میں دے دیا۔ یوں پشاور سے اٹک اور دوسری طرف امب تک کا پورا علاقہ ایک نظام کے تحت متحد ہو گیا اور سید صاحب اطمینان سے پنجاب کی سکھ ریاست کے خلاف اقدام کی تیاری کرنے لگے جو دریائے سندھ سے ستلج تک اور ڈیرہ غازی خان سے سرینگر تک پھیل چکی تھی۔
1244ھ / 1829ء میں جب پشاور سے اٹک اور امب تک سید احمد شہید کی اسلامی ریاست قائم ہو گئی تو سکھوں پر اس قدر رعب چھا گیا کہ وہ اٹک پار کا پورا علاقہ سید صاحب کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے مگر آپ نے ان کی یہ مصالحانہ پیشکش اس بناء پر قبول نہ کی کہ حقیقی مقصد کوئی علاقہ یا جاگیر لینا نہ تھا بلکہ پورے پنجاب، کشمیر اور سارے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بحالی اور شرعی نظام کا اجرا مقصود تھا۔ ادھر منافق سلطان محمد پشاور نے 1830ء کی سردیوں میں ڈیڑھ دو سو غازیوں کو بے خبری کی حالت میں شہید کرا دیا جو مختلف دیہات میں بکھرے ہوئے تھے اور جنہیں سید صاحب ہندوستان کی اسلامیت کا ”خلاصہ” اور ”لب لباب” کہتے تھے۔ بس وہی مجاہدین زندہ بچے جو امب اور پنجتار میں تھے یا بروقت اطلاع مل جانے پر محفوظ مقامات پر چلے گئے تھے۔ یہ تحریک جہاد کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا۔ سید صاحب نے سرحدی خوانین کے بار بار عہد توڑنے پر مناسب سمجھا کہ سرحد کا مرکز چھوڑ کر کشمیر منتقل ہو جائیں جہاں کے مسلمانوں کی طرف سے بارہا دعوت آ چکی تھی۔
ہزارہ، مظفر آباد کے خوانین بھی ساتھ دینے کو ہمہ تن تیار تھے، چنانچہ سید احمد اور ان کے ساتھی دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے دریائے اباسین (سندھ) عبور کر کے راج دواری (بالائی ہزارہ) میں وارد ہوئے اور غازی بو، گڑمنگ، گونش اور بالا کوٹ میں جہادی مرکز قائم کرتے ہوئے مظفر آباد تک پہنچ گئے۔ تحریک جہاد کے معاون خوانین کو سکھوں کی دست برد سے بچانے کے لئے مجاہدین کچھ عرصے کے لئے بالا کوٹ میں مقیم ہو گئے۔ ان دنوں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے فوجی سالار ہری سنگھ نلوہ نے صوبہ سرحد میں بدترین دہشت پھیلا رکھی تھی حتیٰ کہ مائیں اپنے بچوں کو سلاتے ہوئے کہتی تھیں، ”سو جائو ورنہ نلوہ پکڑ لے گا”
Balakot
جب سید احمد شہید بالا کوٹ میں مقیم تھے اس زمانے میں رنجیت سنگھ کا بیٹا شیر سنگھ دس ہزار فوج کے ساتھ مانسہرہ اور مظفر آباد کے درمیان چکر لگا رہا تھا۔ وہ مقامی مخبروں کی رہنمائی میں سکھ فوجیوں کی بڑی تعداد کو مٹی کوٹ کے ٹیلے پر پہنچانے میں کامیاب ہو گیا جو قصبہ بالا کوٹ کے عین سامنے مغرب کی جانب واقع ہے۔ یوں اپنوں کی غداری سے جنگ کا وہ سارا منصوبہ تلپٹ ہو گیا جو سید صاحب نے مظفر آباد اور کشمیر کو بیس بنانے کی شکل میں تیار کیا تھا۔ اب بالاکوٹ آنے والی ایک ایک پگڈنڈی پر مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ ارباب بہرام خان کی رائے تھی کہ ہمیں سکھ لشکر کے کیمپ پر حملہ کر دینا چاہئے لیکن پل توڑا جا چکا تھا۔ ارباب نے عرض کی، پل راتوں رات بن سکتا ہے مگر سید صاحب نے دل گرفتگی کے عالم میں کہا: ”ارباب! اس بات کو چھوڑیے جو کچھ ہونے والا، یہیں ہوکے رہے گا”۔ اس پر ارباب بہرام خان انگشت شہادت سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: ”ایں سر در راہ خدا تعالیٰ حاضر است”!
24ذی قعدہ 1246ھ / 6 مئی 1831ء کو چاشت کے وقت راہ حق کے مجاہدین اور سکھ کفار میں بالاکوٹ اور مٹی کوٹ کے درمیانی میدان میں خونریز لڑائی شروع ہوئی۔ یہ جمعہ کا دن تھا، لڑائی تقریباً 2 گھنٹے جاری رہی، سکھوں کی تعداد غازیوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ سینکڑوں سکھ مارے گئے اور تقریباً 300 غازیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں خود سید احمد اور شاہ اسماعیل بھی شامل تھے۔قافلہ حق کے سالار سید احمد شہید نے چند رسالے بھی تصنیف کئے تھے۔ (1) تنبیہ الغافلین(فارسی)، (2) رسالہ نماز (فارسی)، (3) رسالہ در نکاح بیوگان (فارسی)، (4) صراط مستقیم (فارسی، مولانا عبدالحی نے قیام مکہ میں اس کا ترجمہ عربی میں کیا تھا)، (5) ملہمات احمدیہ فی الطریق المحمدیہ۔
Battle Field
معرکہ بالاکوٹ کے بعد صادق پور (پٹنہ) کے دو بھائیوں مولوی ولایت علی اور مولوی عنایت علی نے سرحد آ کر تحریک جہاد کی قیادت کی۔ انہوں نے اسلام گڑھ کو مرکز بنا کر فتح گڑھ (بالائی ہزارہ) کے معرکے میں پورا سکھ لشکر تہ تیغ کر دیا۔ (1846ئ)۔ اسی مرکز سے مجاہدین بعد میں جموں و کشمیر کے ہندو ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ مولوی ولایت علی 1852ء میں اور مولوی عنایت علی مارچ 1858ء میں وفات پا گئے۔ اپریل 1858ء میں انگریز جرنیل سڈنی کاٹن نے بہت بڑے لشکر کے ساتھ پنجتار کو توپوں کی گولہ باری سے تباہ کر دیا۔ پھر چنگلئی، منگل تھانہ اور ستھانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، مجاہدین ملکا منتقل ہو گئے۔ آخری معرکہ دسمبر 1863ء میں درہ امبیلا سے آنے والی آٹھ ہزار انگریزی سپاہ اور ملکا کے 200 مجاہدین میں برپا ہوا جو اپنے امیر عبداللہ کی قیادت میں مردانہ وار لڑتے ہوئے سب شہادت پا گئے۔