تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی برٹش میوزیم لندن کے عجائب گھر میں ہم پچھلے تین گھنٹوں سے گھوم رہے تھے۔میوزیم کے بڑے بڑے ہال اور راہداریاں ڈائینوسار، بہت بڑی مچھلیوں زمینی اور آبی مخلوق کے ڈھانچوں سے اٹے پڑے تھے چاروں طرف انسانی تہزیب و تمدن کے نوادرات بکھرے پڑے تھے۔ برطانیہ نے دنیا جہاں کے ملکوں میں جہاں جہاں حکومت کی وہاں سے قیمتی اور نادر نوادرات لاکر یہاں اکٹھے کر دئیے تھے ۔ دنیا جہاں کے سیاحوں سے میوزیم بھڑا پڑا تھا۔
کیونکہ فطری طور پر میں ایک متجسس طبیعت رکھتا ہوں ہمیشہ مجھے مظاہر فطرت اور خدا کی تخلیقات بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ تاریخ میرا پسندیدہ موضوع بھی ہے یہاں پر میرے ذوق اور شوق کی ہزاروں اشیاء ڈھانچے اور خنوط شدہ جانور خوبصورتی اور قرینے سے سجائے گئے تھے میرا جوش اور خوشی نقطہ عروج پر تھے میں ہر چیز کودیکھ اور enjoyکر رہا تھا اور خدائے بزرگ و برتر کے عشق میں مزید مبتلا ہو تا جا رہا تھا کہ خالق ارض و سما نے زمین ، سمندر اور فضائوں کو کس قدر حسن اور ترتیب سے نوازا ہے قرآن مجید میں دو تہائی آیات میں رب کعبہ نے غور و فکر کی دعوت دی ہے۔
کیونکہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے بے پناہ نشانیاں ہیں خدا اور اُس کی تخلیق پر جتنا آپ غور کرتے جائیں گے اتنا ہی آپ آپس کی واحدانیت پر یقین کرتے چلے جائیں گے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف جاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرے سامنے ایک ایسا منظر آیا کہ اُس نے میرے قدموں میں زنجیر ڈال دی میں اور قریب ہوا تو اُس کے سحر نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا میں مبہوت ہو کر اُس کے قریب ہوا اور حیرت کے دریا میں ڈوبتا چلا گیا ۔ میرے سامنے ہال کے فرش سے لے کر اونچی چھت تک ہزاروں سال عمر پر محیط ایک بہت بڑے اور بوڑھے درخت کا تنا خوبصورتی اور قرینے سے کاٹ کر دیوار پر لگا دیا گیا تھا اِس تنے کا قطر یا چوڑائی حیران کن تھی درخت ہزاروں سال پرانا تھا دیوار پر تنے سے متعلقہ بہت ساری تفصیلات درج تھیں میں پڑھتا چلا گیا اور خدائے واحد کی تخلیق کی داد دیتا چلا گیا کہ میرے پروردگار نے کیسے کیسے شاہکار اِس زمین پر تخلیق کئے ۔ ہزاروں سال پہلے یہ درخت بیج سے پودا بنا پھر ہزاروں سالوں کے سفر کے بعد چوڑائی اور لمبائی کے اِس مقام پر پہنچا واہ میرے مولا تو عظیم ہے ۔ یہاں سے ہم ہزاروں سال پرانی مصری تہذیب کے ہال میں داخل ہوئے ۔ جس کے لیے میں بار بار اپنے میزبانوں سے کہہ رہا تھا کہ مجھے اِس سیکشن میں لے چلیں۔ ان جب ہم اِس ہال میں داخل ہوئے تو چاروں طرف حنوط شدہ ممیا ں پڑی تھیں۔
ہزاروں سال پہلے کے انسان جو دنیا میں اپنا وقت گزار کر چلے گئے زمین اور حشرات الارض اُن کے گوشت کھا گئے اب صرف ان کے ڈھانچے تھے جو زندہ انسانوں کے لیے سامانِ عبرت کا مظہر تھے بے شمار حنوط شدہ ڈھانچے جن کو مخصوص کیمیکل لگا کر محفوظ کیا جاتا تھا ۔ آج اُن کے حنوط شدہ جسم بے بسی اور حسرت کا مجسمہ بنے لیٹے تھے یہاں پر اُس دور کے زیور ات سامان ہتھیار اور روزمرہ کی چیزوں کے انبار لگے تھے ۔ لگ رہا تھا کوئی پورا شہر برباد ہوا ہو گا گورے اُس پورے شہر کو اُٹھا کر یہاں لے آئے ۔ اِن ڈھانچوں ، ہڈیوں اور ہزاروں سال پرانی چیزوں کو دیکھ کر میں بار بار یہ سوچ رہاتھا کہ ایک دن ہمارا بھی یہی حال ہو گا اور ہزاروں سال پہلے یہ بھی ہماری طرح اِسطرح زندہ کھاتے پیتے اور روزمرہ کے معمولات ہماری طرح ہی سر انجام دیتے ہوں گے ۔ لیکن آج بے بسی اور سامان عبرت بنے ہوئے تھے۔ ہزاروں سالوں سے پتہ نہیں کتنی بے شمار آفتاب صورتیں اور مہتاب مورتیں پیوند خاک ہو گئیں ۔ گلاب چہرے مرجھا گئے غزالی آنکھیں پتھرا گئیں یا قوتی سرخ گلاب ہونٹ خشک ہو گئے اور جادہ نگار زبانیں گنگ ہو گئیں ۔ میوزیم میں بکھرے ڈھانچے بھی کبھی زندہ تھے اِن کے لیے بھی زندگی کتنی پر کشش تھی ۔ انسان اپنی بقا کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے۔
British Museum
کیسے کیسے جتن کرتا ہے ۔ کیسی کیسی بلند بالا فصیلوں پر کمندیں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور کن کن پتھریلی چٹانوں سے جوئے شیر بہا لانے کی کوششیں کرتا ہے ۔ دوسروں کو نیچا کرنے اور خود آگے نکل جانے کے لیے کیا کیا جائز نا جائز حربے اپناتا ہے اونچا مقام پانے کے لیے کیسی کیسی معرکہ آرائیاں کرتا ہے کیسے کیسے ارفع نظریات کی بولی لگاتا ہے اور ضمیر کو منڈی کا مال بناتا ہے ۔ اخلاقی اقدار کو کوڑیوں کے مول لٹاتا ہے اور کیسے کیسے جھوٹے خدائوں کو سجدہ گاہ بناتا ہے اقتدار اور اختیار کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں خرچ کرتا ہے آج بھی اچھی نوکری بڑا گھر بڑی گاڑی پلازے ، پلاٹ ، کارخانے ، فیکٹریاں ، کاروبار ، شہرت نام مقام یہ سب پانے کے لیے کیا کیا کوششیں کرتا ہے ۔ انسان مسلسل اِن کے تعاقب میں لگا رہتا ہے ۔ اور پھر جب انسان کا وقت پورا ہو تا ہے ۔ اوپر نیلے آسماں پر رخصتی کا ناقوس بجتا ہے ۔ جاہ و جلال ، عزت شہرت ، تخت تاج عہدے ، بنک بیلنس ، پلازے طاقت اختیار سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے رگوں میں دوڑتاپر جوش صحت مند خون سرد پڑنے لگت اہے ۔ زمانے بھر کو ڈرانے والا ہاتھ اور انگلیاں کمزور پڑنے لگتی ہیں ۔ انگلیاں ہاتھ پائوں اور تمام جسمانی اعضاء کمزور اور فالجی کیفیت کا شکار ہونے لگتے ہیں جسم جو طاقت کا خزانہ اپنے اندر رکھتا ہے اب بے جان لاشے میں تبدیل ہو نا شروع ہو تا ہے۔ نبضیں ڈوبنے لگتی ہیں اور پھر سارا تماشا آہستہ آہستہ ختم ہو نے لگتا ہے۔
بادشاہ ہو یا فقیر مفسر ہو یا عالم دین قطب غوث اور قطب زمان ہزاروں زندگیوں اور موت کے مالک جن کے ایک اشارے پر لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے جنہوں نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے جنہوں نے خون کے دریا بہا دئیے وہ فاتح عالم جنہوں نے جس شہر ملک کو فتح کرنا چاہا کامیاب ہوئے جن کی زندگیوں میں لگتا تھا کہ زوال یا موت اِن کے لیے نہیں ہے لیکن وقت نے کروٹ لی تو سب کو ایک نہ ایک دن رخصت سفر باندھنا پڑا اور جب بنجارہ لاد چلتا ہے تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے ۔ چاروں طرف بکھرے ہڈیوں کے ڈھانچوں کو دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ حضرت انسان اپنے خصائص و اطوار میں کیا عجیب ہے درگزر پر آئے تو دشمن کو دودھ کا پیالہ پیش کرتا ہے اور اگر انتقام پر آئے تو بھائیوں کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلاخیں پھیر دیتا ہے ۔ بے نیاز اِس قدر کہ بادشاہی چھوڑ کر فقیری اختیار کر لیتا ہے اور حریص اقتدار اتنا کہ حکومت کے لیے باپ کو جیل بھجوا کر بھائیوں کو مروا کر اور دوسروں کی کھال کھینچوا دیتا ہے ۔ دولت اکٹھی کرنے پر آئے تو گویا ہزاروں برس زندہ رہے گا اور قربانی پر آئے تو سب کچھ یوں لٹا دیتا ہے کہ آج ہی مرنے والا ہے۔
میں انہی سوچوں میں غرق تھا کہ میرے میزبان وقاص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور جوس کا ٹن میرے ہاتھ میں تھما یا او ر بسکٹ کا ڈبہ کھول کر سامنے کر دیا میں نے مزے دار مشروب کے گھونٹ کو گلے سے اتارا اور اِس دنیا میں آ گیا نور احمد میرا دوسرا میزبان تیزی سے میری طرف بڑھا اور بولا بھا ئی جان ایک بوڑھی ماں کل سے فون کر رہی ہے وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے میں نے اُسے بتا یا کہ آپ نے صبح مانچسٹر چلے جانا ہے واپسی پر ملاقات ہو گی لیکن وہ بہت پریشا ن اور رو رہی ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اُس کو شام کے وقت لندن برج دریائے تھیمز بلا لوں تاکہ وہاں وہ آپ سے مل لے کیونکہ ہم نے یہاں سے ادھر ہی جانا ہے۔ میرے اقرار پر نور احمد نے اُس بوڑھی ماں کو دریائے تھیمز کے کنارے بلا لیا۔