تحریر : ساحل منیر توہینِ مذہب کے قانون کے تحت شاہدرہ لاہور سے تعلق رکھنے والے گرفتار مسیحی نوجوان پطرس کے کزن ساجد مسیح پر دورانِ تفتیش ایف آئی اے اہلکاران کا بہیمانہ تشدداور مبینہ طور پر اپنے کزن کے ساتھ بدفعلی کے لئے مجبور کرنے پراُس کا چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوجانا ایک ایس دلگیر واقعہ ہے جسے معاشرے میں ایک مخصوص اکثریتی جبر و متشددانہ ذہنیت کی بدترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اب اس مظلوم و لاچار کے خلاف ایف آئی حکام کی طرف سے اقدامِ خودکشی کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے تاکہ زندہ بچ جانے کی صورت میں اُس کی ذلت و رسوائی کا ایک نیا باب رقم کیا جا سکے۔مذہبی اقلیتوں کے افراد کے ساتھ اس قسم کے نفرت انگیز و غیرانسانی سلوک کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اِس سے قبل بھی ایسے بے شمار دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں جن کی تفصیل میں جائیں تو محرومی و بے چارگی کا یہ دکھ دوچند ہوجاتا ہے۔
اگر ماضی میں اقلیتوں کے حوالے سے اس نوعیت کے انتہاپسندانہ ومبنی برامتیاز واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے تو شائد ان کی زندگیوں میں کچھ آسانیاں پیدا ہوسکتیں۔مگر افسوس صد افسوس کہ حکومتی سظح پر اقلیتوں کے حقوق کے بلندوبالا نمائشی دعوے تو کئے جاتے رہے لیکن عملی طور پر کبھی بھی کوئی موثرحکمتِ عملی سامنے نہ آئی۔بدیں وجہ سماج کے یہ محروم وپسماندہ طبقات آج بھی وطنِ عزیزمیں بطور شہری اپنے مساویانہ حقوق و مراتب اور تحفظِ جان و مال کے خدشات سے دوچار ہیں۔معاشرے میں پائے جانے والے مذہبی امتیازات کی بناپرانہیں ایک طرف روزمرہ زندگی میںہمہ وقت پیچیدہ نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف ریاستی اداروں میں موجود ایک خاص مائنڈسیٹ انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کے درپے ہے۔
ریاست کے مختلف العقائداقلیتی طبقات کے لئے یہ صورتحال کسی طور بھی امید افزاء قرار نہیں دی جاسکتی۔ریاستی وغیر ریاستی عناصر کی طرف سے اگراس اقلیت کش سیلاب کے آگے فوری طور پرکوئی بند نہ باندھا گیا تواپنے ہی ملک کے شہریوں کے ساتھ اس طرح کے مزید رسواکن واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور دنیا ہماری اقلیت پروری پر سوال اٹھاتی رہے گی۔
ساجد مسیح کے ساتھ پیش آنے والے اس افسوسناک واقعہ پر جہاں سوشل میڈیا پر اقلیتی بالخصوص مسیحی حلقوں کی جانب سے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسکی منصفانہ تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہاںاکثریت سے تعلق رکھنے والے بہت سے دردمندانِ انسانیت بھی اس کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ان کے ہم آواز بنے ہوئے ہیں۔ایک خالصتاً انسانی المیے پر بلاامتیازصدائے احتجاج بلند کرنا یقینی طور پر ایک خوش آئند امر ہے۔
معاشرے سے انتہاپسندی اور نفرت و تعصب کے خاتمے کی اس جدوجہد میں اقلیتوں کو اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار کے حامل انہی لوگوں کی ضرورت ہے اور آج انہی کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ہم حکومتِ وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ساجد مسیح کو انصاف دلایا جائے۔
انسان برابر ہیں سارے سب انسانوں سے پیار کرو ہر مذہب کا یہ محور ہے اِس محور کا پرچار کرو جیون کی اندھیری راہوں میں اِک دیپ جلائو چاہت کا پھر دیپ سے دیپ جلا کر تم یہ غم کا دریا پار کرو