خاکہ کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔ سوانح نگاری کی بہت سی صورتیں ہیں، ان میں سے ایک شخصی خاکہ ہے۔ دراصل یہ مضمون نگاری کی ہی ایک قسم ہے، جس میں کسی شخصیت کے ان نقوش کواُجاگر کیا جاتا ہے جن کے امتزاج سے کسی کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔”خاکہ نگاری” بال سے باریک، تلوار سے تیز، صراطِ مستقیم کا نام ہے۔خاکہ نگاری ایک ایسی تلوار ہے جس سے لکھنے والا خود بھی زخمی ہوسکتا ہے ۔ رشید احمد صدیقی ”خاکہ نگاری” کے حوالے سے کہتے ہیں: ”خاکہ نگاری کی بڑی اور اولین شرط یہ ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنادے، بڑے کو بڑا دکھانا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ چھوٹے کو بڑا دکھایا جائے۔ فن اور فن کار کی یہ معراج ہوگی۔”
خاکہ نگاری کا عمل ان معلومات میں سے ایک مکمل شخصیت کو تراشنا ہے ایسے ہی جیسے کوئی بت تراش پتھر کے ایک بڑے ٹکڑے سے ایک بت کا خاکہ اْبھار لیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی وافر معلومات اور واقعات میں سے خاکہ نگار کو کس قسم کی معلومات اور واقعات کا انتخاب کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں کوئی قاعدہ کلیہ اور اصول وضع نہیں کیا جاسکتا۔منٹو جو جدید خاکہ نگاری کا نقطہ آغاز ہے،نے اپنے عہد کی معروف شخصیات کو موضوع بنایا مگر اْن میں سے اکثر اور خصوصاًفلمی شخصیات اب وقت کے غبار میں گم ہو کر رہ گئیں ہیں۔گویا خاکہ کے لیے کسی شخصیت کا مشہور ہونا ضروری نہیں ہے گم نام شخصیات بھی خاکہ کا حصہ بن سکتی ہیں۔ بعض ایسے خاکے شہرت بھی حاصل کر لیتے ہیں اور کبھی کبھی یہ خاکے زیادہ جاندار ہوتے ہیں۔رشید احمد صدیقی کا ”ایوب” اور مولوی عبدالحق کا”گڈری کا لعل” اور ”نور خان”اس کی عمدہ مثال ہیں۔
خاکہ نگاری کی صنف میں کام کرنے کا چیلنج اٹک کے اُبھرتے ہوئے ادیب و مصنف سجاد حسین سرمد نے قبول کیا اوراٹک جیسے زرخیز علمی و ادبی خطے سے خاکہ نگاری کی صنف میں اپنی پہلی کتاب”نشاطِ سرمدی” منصہ شہود پر لائے ہیں۔سجاد حسین سرمد کے سرمایہ زیست میں شامل قد آور شخصیات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ سجاد حسین سرمد کی خوش بختی ہے کہ اُن کے حلقہ احباب ذوق میں صاحبزادہ ابوالحسن واحد رضوی، ڈاکٹر محمدایوب شاہد،پروفیسر انور جلال، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، غلام ربانی فروغ،مشتاق عاجز، سیدنصرت بخاری ،طاہر اسیرسمیت بے شمار دیگر علمی و ادبی شخصیات شامل ہیں جنکی صحبت نے سجاد سرمد میں چھپی صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے۔
اچھے خاکے کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخصیت کے کچھ اہم پہلو اور منفرد پہلو ایسی ماہرانہ نفاست کے ساتھ بیان کیے جائیں کہ قاری پر اس شخصیت کا تاثر پیدا ہوجائے اور اْس کے افکار و کردار کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو مل جائیں۔ خاکہ پڑھنے کے بعد متعلقہ شخصیت کی صورت، سیرت، مزاج، ذہن، اْس کی خوبیاں اور خامیاں سب نظروں کے سامنے آجائیں۔ خاکے میں غیر ضروری تفصیل کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ایک شخصیت کے متعلق کئی قسم کی معلومات خاکہ نگار کے پاس جمع ہو سکتی ہیں۔ کئی طرح کے واقعات اْس کی زنبیل میں موجود ہوں گے۔ خاکہ نگار کے لیے زیادہ سہولت اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایسی شخصیت کو موضوع خاکہ بنائے جس کے ساتھ اْس کے تعلقات کی عمر لمبی ہو۔ اس طرح وہ اْس شخصیت کے ظاہر و باطن کے متعلق معلومات کا وافر ذخیرہ مہیا کر لیتا ہے، مگریہ سب خام مواد ہوتا ہے۔
نشاطِ سرمدی ایک سو بارہ صفحات پر محیط ہے جسے ادارہ جمالیات اٹک نے شائع کیا ہے۔ مقدمہ “جنھیں نظریں ڈھونڈتی ہیں”کے عنوان سے پروفیسر انورجلال نے لکھا ہے جبکہ اسکی ترتیب محسن عباس ملک نے دی ہے۔ پیش لفظ “ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب”مصنف کتاب ھذا سجاد حسین سرمد نے تحریر کیا ہے۔اس کتاب میں نو عنوانات یاشخصیات پر خاکے تحریر کیے گئے ہیں۔ کتا ب کا بیک ٹائیٹل پروفیسر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی تحریر سے مزین ہے جس میں وہ اٹک کی دھرتی میںپیدا ہونے والی مشہور علمی ، ادبی وروحانی شخصیات کا ذکر کیا ہے۔مصنف نے کتاب کے پیش لفظ میںاپنے بارے میں کھل کر اظہار کیا ہے اور کوئی امر مخفی نہ رکھا ہے۔ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ 2008ء میںواحد رضوی صاحب کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا۔ جنہوں نے کمال مہارت سے محبت اور توجہ سے علمِ بیان، علمِ بدیع اور علم ِ عروض کے ابتدائی اسباق پڑھائے،وہیں صاحبانِ فکر وفن کی آمدورفت سے مطالعے کا شوق پروان چڑھا جسے ڈاکڑ ارشد محمود ناشاد برابر مہمیز کرتے رہے یو ں دیکھتے ہی دیکھتے یہ زندگی کا حصہ بن گیا۔ علم عروض کا باقاعدہ طالب علم رہنے اور شعر کہنے کی صلاحیت رکھنے کے باوصف آج تک خود کو بہ طور شاعر کہنے اور کہلوانے میں تامل ہے۔ احباب مصر ہیں کہ :تم شاعر ہو اور اچھا شعر کہنے کی صلاحیت رکھتے ہولیکن مجھے ان سے اختلاف ہے۔نشاط سرمدی میرے اسی دعوئے کی دلیل اور شاعری سے براّت کا اظہار ہے۔
سجاد حسین سرمد کے خاکے پڑھنے لائق ہیں ۔ یوں لگتا ہے مصنف کی قوت مشاہدہ بہت تیز ہے او ر انہوں نے ان کرداروں کے ساتھ اپنے روحانی تعلق میں ڈوب کر ان کے خاکے تحریر کیے ہیں۔جن سے ان کی جذباتی وابستگی کا اظہار بھی ہوتاہے۔ مصنف نے ٩ شخصیات پر اس کتاب میں خاکے تحریر کئے ہیں جن میں نذر صابری صاحب، وقار صاحب، دلاور استاد، شیخ صاحب ، بھاگ بھری،ماما داد، بابا منیر، حاجی عبدالطیف اور پولی ٹیکنیک کالج کے اساتذہ شامل ہیں۔پروفیسر انور جلال ملک صاحب نے اس کتاب کے مقدمے میں کھل کر ہر خاکے پر مختصر روشنی بھی ڈالی ہے۔مصنف نے خاکہ “وقار صاحب ” میںمنظوم مجموعہ” چاندنی سے دیا جلاتے ہیں” (مرتبین : شہزاد حسین بھٹی /اقبال زرقاش)کے مصنف ذہنی و جسمانی معذور شاعر خالد عنبر بیزار پر بھی قلم کشائی کی ہے اور یوں رقم طراز ہیں”خالد بیزاز ۔۔۔۔ بے چارہ غربت کی بھینٹ چڑھ گیا ، معذوری اور پاگل پن کے عالم میں زندگی بِتا رہا ہے۔اللہ اسکے ساتھ بہتری والامعاملہ کرے۔ وقار صاحب ان کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک بار اُن کا شعر سنایا:
بجے کلائی میں چُوڑی تو کھِل اُٹھیں منظر اُٹھے سنوارنے آنچل تو ہاتھ رقص کرے
اور اسکے محاسن کی ذیل میں کہنے لگے: نغمگی اور ترنم اس شعر میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ خالد کے حالات شروع سے دگر گوں تھے۔ بے روزگاری کے باعث اُسے قندیل ادب کا سیکرٹری بنا دیا گیاتھا تاکہ مصروفیت کے باعث دل بہلا رہے ۔ اسکے مخبوط الحواس ہو جانے کے بعد ایک بار ارشاد علی نے خواہش ظاہر کی تھی کہ : بیزار کا کلام چھپنا چاہیے جس پر وقار صاحب نے انہیں کہا: اب کلام کی اشاعت اتنی ضروری نہیں ، وہ رقم ان کے گھر میں دے دی جائے تو بہتر ہے۔
سجاد سرمد کی توصیف میں پروفیسر انور جلال بھی یوں رقم طراز ہیں”سجاد حسین سرمد کا انداز تحریر پختہ ہے اور انہیں سلیقہ ہے کہ موضوع کی مناسبت سے عمدہ الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر استعمال کر سکیں۔ جذباتی فضاء کو لفظوں میں بیان کرنا سرمد کو خوب آتا ہے۔ اپنے آس پاس کی شخصیات کا غور سے مشاہدہ اوران کی شخصیات کے داخلی پہلوئوں کو عمیق نظروں سے دیکھنے کا شوق، اگر انہوں نے جاری رکھا تو اس فن کو مزید تقویت دے سکیں گے۔”یوں بحثیت کالم نگار میرا بھی سجاد سرمد کو یہی مشورہ ہے کہ اس پل صراط پررکیں نہیں بلکہ آگے بڑھیں اور بڑھتے ہی چلے جائیں۔ یہ گنگناتے رہیں ”چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی”، کیونکہ سیکھنے کی کوئی منزل نہیں۔ کسی منزل کو آخری منزل سمجھنا دانش کی موت شمار ہوتی ہے۔