(سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف ، مرکزی امیر عالمی چادر اوڑھ تحریک ) ایک شیخ نے اپنے مُرید کو خرقۂ خلافت عطا کیا اور اسے کسی بستی میں تبلیغ کے لیے بھیج دیا، کچھ عرصہ بعد شیخ کو اطلاع ملی کہ ان کا مُرید بڑا کامیاب ہے سب لوگ اس سے خوش ہیںشیخ نے مرید کو طلب کیا اور کہا کہ خرقۂ خلافت واپس کردے، مرید نے شیخ سے ناراضی کا سبب دریافت کیا۔ شیخ نے کہا ”سنا ہے کہ سب لوگ تجھ سے خوش ہیں۔” مرید نے کہا ”آپ کی مہربانی اور دُعاہے”۔ شیخ نے غصّہ سے کہا کہ ”سب لوگوں کا خوش ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ تم نے سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔”۔۔۔۔۔۔پاکستان کے مشہور مزاروں اور درگاہوں کا اندازہ لگائیے جو اکثر صوبائی محکمہ اوقاف نے ”ہتھیا” رکھے ہیں ان کے کرتا دھرتا بیورو کریسی کے سی ایس پی یا پی سی ایس افسر ہوتے ہیں بعض مزار مرکزی محکمہ آثار ِ قدیمہ کی نگرانی میں ہیں کیا وہاں سر کاری عملے نے اتنی وسعت ِ نظر اور قابلیت سے زائرین کی ضرورتوں اور ان کی خدمات کو سامنے رکھا ہے ؟کیا آمدن کو صاحب ِ مزار کی تعلیمات کے مطابق تبلیغ و ارشاد اور اصلاح و فلاح پر صرف کیا جاتا ہے
؟ محکمہ اوقاف اور اس کا عملہ شاید اس رمز سے واقف ہو گئے ہیں کہ صاحب ِ مزار نے تو ان کے کرتوتوں سے تنگ آکر منہ دوسری طرف کر لیا اب یہ لوگ بے چنت ہیں کہ ان کی بد دیانتی ، بد معاملگی اور زائرین کی حق تلفی کا معاملہ آخرت پر چلا گیا، آگے دیکھا جائے گا اور آگے کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ، اس بے حسی ، بے خوفی اور بے اعتنائی نے جہاں محکمہ اوقاف کے زیر تسلط مقابر اور مزارات کو ان کے تقدس سے محروم کردیا وہاں زائرین کو بھی ناقص انتظامات اور لوٹ مار کی نذر کر ڈالا یہی وجہ ہے کہ الا ما شا ء اللہ اب تبلیغ ، تعلیمات اور خدمات محکمہ اوقاف کے زیر تسلط کسی مزار پر نظر نہیں آتیں البتہ صاحب ِ مزار کی برکت سے بہت سارے نا اہلوں کی نوکری اور پیٹ پوجا کا مفت سامان فراہم ہو گیا ہے
خیر یہ تو ایسے ہی ذکر ہو گیا آج ہم بات کریں گے نعلین مبارک ۖکے حوالے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ چند دن پہلے قومی جرائد کے صفحات پر چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف پنجاب کی طرف سے نعلین پاک ۖ کے جزو کی بازیابی کے لیے محکمہ اوقاف آرگنائزیشن و مذہبی امور پنجاب کی طرف سے 20لاکھ روپے کے نقد انعام کا اعلان کیا گیا تھا کہ” مورخہ 31جولائی 2002ء کو بادشاہی مسجد لاہور کی تبرکات گیلری سے حضور نبی کریم ۖکے نعلین مبارک چوری ہونے والے ایک جزو کی بازیابی کے لیے کوئی بھی فرد یا ادارہ محکمہ اوقاف آرگنائزیشن و مذہبی امور پنجاب کو مصدقہ اطلاع ، نعلین مبارک ۖ کی بازیابی ، ملزم کی نشاندہی اور گرفتاری میں مدد دینے والے کو مبلغ 20لاکھ روپے انعام دیا جائے گا اور اس کا نام بھی صیغہ را میں رکھا جائے گا ہر خاص و عام سے التماس ہے کہ وہ اس مذہبی و قومی اثاثہ کی بازیابی کے سلسلہ میں محکمہ اوقاف سے تعاون کریں ”اس سے پہلے کہ ہم اس حساس مسئلہ پر کچھ عرض کریں ہم چاہتے ہیں کہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں نعلِ مبارک ۖکی فضیلت ، اہمیت اور شان کے بارے میں حضور نبی کریم ۖ کے اُمتیوں کو آگاہ کیا جائے سیرت رسول ۖپر قلم لکھنا چاہیے تو بالآخر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ قلم عاجزی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے کائنات میں جگہ جگہ جو حُسن و جمال کے جلوے نظر آرہے ہیں یہ سب میرے کریم آقاۖ کے نعلین پاک کے مبارک تلوئوں کو چھونے والے ذروں کی خیرات کا صدقہ ہے کیونکہ قلندر لاہور ی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی
جس کی اذیت کو رب تعالیٰ اپنی اذیت قرار دے فرمایا ”بے شک جو اذیت دیتے ہیں اللہ اور اُس کے رسول کو اُن پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے (سورة الا حزاب ،آیت 57) جس کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے کے آداب خود ربِ ذوالجلال کی طرف سے عطاہوئے ہوں کہ ”اے ایمان والو !اپنی آوازیں اونچی نہ کیا کرو اس (غیب بتانے والے ) نبی ۖ کی آواز سے اور نہ ان کے حضور چلا کر نہ کہو ،جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ”(سورة الحجرات ،آیت ٢) ادب گاہے زیست آسمان از عرش نازک تر نفس گُم کردہ می آید جنید و با یزید اینجا
جس کے بارے میں بریلی کے کچے کوٹھے میں ٹوٹی چٹائی پر بیٹھے پکے عقیدے کی حامل شخصیت امام احمد رضا خاں بریلوی نے کیا خوب فرمایا کہ
اللہ کی سرتا بقدم شان ہیں یہ اِن سا نہیں اِنسان وہ اِنسان ہیں یہ قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
فضیلة الشیخ علامہ سید یوسف سید ہاشم رفاعی (کویت )نے بھی نعلین مبارک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں کتب ِ صحاح میں ہے کہ ان کے پاس نعل ِ اقدس ، کنگھی ، سُرمہ دانی اور وضو کا برتن ہوا کرتا تھا جیسے کہ امام بخاری وغیرہ نے بیان کیا ہے کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آرام فر ماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کرتے ، جب غسل فرماتے تو وہ پردہ کرتے ، جب باہر جانے کا ارادہ کرتے تو وہ نعل مبارک پیش کرتے ، جب اندر جانے لگتے تو وہ نعل مبارک اتارتے ، عصا اور مسواک اُٹھائے رکھتے علامہ شیخ یوسف نبہانی
رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں وَنَعلُ’خَضَعنَا ھَیبَتہََ لِوَقَارِ ھَا فَاِ نَاَمَتَی نَخضَع لِھَیبَتِھَانَعلُو فَضَعھَاعَلیٰ اَعلیٰ المَفَارِقِ اِنَھَا حَقِیقَتُھَاتَاجُُ وَصُورَ تُھَانَعلُُ
Nalain Pak
”وہ نعل ِمبارک جس کے رعب اور دبدبہ کے سبب ہم جھک گئے جب ہم اس کی ہیبت کے آگے جھک جائیں گے تو سر بلند ہوں گے تو اسے اپنے سر پر رکھ کہ حقیقت میں تاج ہے گو کہ دیکھنے میں نعلِ مبارک ہے” اے ابن ام عبد (عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ )اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتیں نازل فر مائے ۔۔۔۔۔ آپ نے بھولی بسری اور”گُم راہ ” اُمت مسلمہ کو یہ سبق دیا ہے کہ فقط اتباع ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ محبت بھی ضروری ہے کیونکہ بعض اوقات خوف یا طمع کی بنا ء پر محبت و عقیدت سے عاری شخص بھی پیروی کرتا ہے (اور اس کاکچھ اعتبار نہیں )اے اللہ :ہمیں محبت سے سرشار پیرو کاربنا۔۔۔۔۔حبیب ِ کریم ۖ فر ماتے ہیں ”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنے والد ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ رکھے ”یہ حدیث ِ پاک امام بخاری اور مام مسلم نے روایت کی ہے ۔۔۔۔۔
حدیث کی صحیح کتابوں اور کتب ِ سیرت میں احادیث ِ صحیحہ تواتر کو پہنچ گئی ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنھم نبی کریم ۖ کے آثارِ شریفہ مثلاََبابرکت بالوں ، وضو کے پانی ،یہاں تک کہ لعابِ دہن سے برکت حاصل کیا کرتے تھے جیسے کہ علامہ ابنِ قیم نے ”زاد المعاد فی خیر العباد ”وغیرہ میں نقل کیا ۔۔۔۔۔جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ۖ کے نعلِ شریف اُٹھانے کی سعادت نصیب ہوئی یہاں تک مروی ہے کہ وہ اُنہیں اپنی آستین میں رکھ لیا کرتے تھے ، بہت سے علماء نے نبی کریم ۖ کے نعال شریفہ کے موضوع پر بڑے اہتمام سے کتابیں لکھی ہیں نبی کریم ۖ کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ علماء نے آپ ۖ کے نعل ِ اقدس کی صفت ۔۔۔۔اس کی تصویر ، رنگ اور جنس ، ان کی تعداد اور ان کے حاملین کے بارے میں گہری نظر کے ساتھ دقیق بحثیں کی ہیں اور نظم و نثر میں ان کی رنگا رنگ انداز میں مدح و ثناء کی ہے
کتب سیرت میں جلیل القدر حفاظِ حدیث اور اکابر محدثین مثلاََابن ِ عربی ، ابن ِ عساکر ، ابنِ مرزوق ، فارقی ، سیوطی ، سخاوی ، تتائی اور عراقی نے نبی کریم ۖکے نعل شریف کی تصویر کی تحقیق کے بارے میں پُر مغز بحثیں کی ہیں ۔۔۔۔بہت سے یگانہ روز گار ادباء مثلاََ ابو الحسن بن سعد البلانسی ، ابو امیہ اسماعیل بن سعدالسعود بن عفیر ،شرف الدین عیسی ٰبن سلیمان الطنوبی المصری ، ابو الحکم بن المرحل السبتی ، حافظ ابو عبد اللہ محمد بن الاء بار القضاعی البلنسی ، حافظ ابو الربیع سلیمان الطلاعی ، علی ابو الحسن الرعینی ،علی ابو الحسن بن احمد الخزرجی ، امام ابو الخیر محمد بن محمد الجزری ، حافظ محمد بن رشید الفہری السبتی اور علامہ احمد المقری نے نعل مبارک کی تعریف و توصیف کی ہے ان حضرات کے طویل قصائد ، نبی کریم ۖ کے نعلِ اقدس کی تصویر کی زور دار تعریف اور توسل و تبرک پر مشتمل ہیں ان کا مقصود نعل ِ اقدس نہیں بلکہ وہ ذات ِ اقدس ہے جسے اس نے استعمال کیا یہ تصویر تو اس ذات ِ اقدس کے قدم کے لیے وسیلہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کامل ترین اوصاف سے نوازا
”نعال مبارک کی محبت نے میرے دل کو وارفتہ نہیں کیا بلکہ انہیں پہننے والی ہستی کی محبت نے مجھے خود رفتہ کردیا ہے ” اللہ تعالیٰ شیخ فاکہانی اسکندری ، مالکی پر رحمتیں نازل فر مائے جب انہوں نے نعل ِ نبوی ۖ کی تصویر دیکھی تو فر مایا
اگر مجنوں کو کہا جائے کہ کیا تو لیلٰی اور اس کا وصال چاہتا ہے ؟ یا دنیا و مافیا ۔۔۔۔۔۔تو وہ کہے گا کہ اس کے جوتے کی مٹی کا غبار میری جان کے لیے زیادہ محبوب ہے اور اس کی بیماری کے لیے زیادہ شفاء بخش ہے ” بعض علماء نے تو اس موضوع پر مستقل رسالے لکھے ہیں امام علامہ شہاب الدین احمد المقری نے ”فتح المتعال فی مدح النعال ”کے نام سے ایک رسالہ لکھا ، ہندوستان کے علامہ اور علماء دیوبند کے حکیم الامت شیخ اشرف علی تھانوی نے ایک رسالہ لکھا ”نیل الشفاء بنعلِ المصطفیٰ ۖ ”علامہ قسطلانی اور علامہ احمد مقری نے علماء کے تجربات بیان کیے ، جنہیں سرور عالم ۖ کے نعل شریف کی تصویر اپنے پاس رکھنے کی بدولت برکتیں میسر ہوئیں (دیکھیے علامہ قسطلانی کی مواہب الدنیہ کی شرح از علامہ زرقانی جلد 5صفحہ 48مطبوعہ دار المعرفہ بیروت )علامہ مقری نے اپنی کتاب ”فتح المتعال ”میں جس کا ذکر اس سے پہلے آچکا ہے
نبی کریم ۖ کے نعل مبارک کی معتبر صفت اور راجح تصویر کے بیان کرنے میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور جس تصویر کو انہوںنے راجح قرار دیا ہے اس کے بارے میں کہتے ہیں یہ ابن عربی ، ابن عساکر ، ابن مرزوق ، فارقی ، سیوطی ، سخاوی ،تتائی اور دیگر متعدد مشائخ کے نزدیک معتبر ہے علامہ مقری نے اپنی اور دیگر مشائخ کی سندوں سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ۖ کے نعل مبارک ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تھے پھر وہ دوسرے لوگوں کے پاس منتقل ہوتے رہے اور ان کے برابر دوسرے نعل تیار کیے گئے پھر انہیں سامنے رکھ کر مزید تیار کیے جاتے رہے یہاں تک کہ مشائخ نے ان کا نقشہ کاغذ پر تیار کیا اور اسے سندوں سے روایت کیا اس موضوع پر متعدد علماء نے کتابیں لکھیں ان میں سے ایک ابو الیمن بن عساکر ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں نعل مبارک کا نقشہ بھی دیا ہے پھر ان کی کتاب سندوں سے روایت کی گئی اور با قاعدہ ضبط کے ساتھ پڑھی گئی یہاں تک کہ شیخ مقری تک پہنچی تو انہوں نے اپنی کتاب ”فتح المتعال ”میں نقشہ پیش کیا ان کے سامنے ابن عساکر کی تصنیف کا وہ مستند نسخہ تھا جس پر جلیل القد علماء اور حفاظ مثلاََ سیوطی ، سخاوی اور دیمی رحمہم اللہ تعالیٰ کی تحریرات موجود تھیں
متاخرین میں سے علامہ شیخ یوسف نبہانی رحمة اللہ نے نعل شریف کے بارے میں بڑا اہتمام کیا اور بہت کچھ لکھا علامہ نبہانی فر ماتے ہیں کہ علامہ مناوی اور ملا علی قاری شرح شمائل میں فر ماتے ہیں کہ ابن عربی نے فر مایا ”نعل مبارک انبیاء استعمال فرمایا کرتے تھے عجمیوں نے دوسرے جوتے اس لیے استعمال کیے کہ ان کے علاقے میں کیچڑ ہوتا تھا مروی ہے کہ کتب قدیمہ میں نبی کریم ۖ کا ایک نام صاحب ِ نعلین بھی ہے کیونکہ نعل کا استعمال کرنا عرب کی عادت ہے
صحیح یہ ہے کہ نبی کریم ۖ کے نعل کا تلا دوہرے چمڑے کا تھا اور بالوں سے خالی ،اس کے دو تسمے تھے جن میں سے ایک کو نبی کریم ۖ انگوٹھے اور اس کے ساتھ والی انگلی کے در میان رکھتے تھے یہ دو نوں تسمے پا ئوں کی پشت پر ایک چوڑی پٹی سے وابستہ تھے یہ پٹی گائے کے دوہرے چمڑے سے بنی ہوئی تھی اس پٹی کی نوک آگے بڑھی ہوئی تھی جیسے زبان ہو ، پچھلی طرف بھی ایک تسمہ تھا جو پائوں کے باندھنے کا کام دیتا تھا بعض حفاظ نے کہا کہ نعل مبارک زرد رنگ کا تھا نبی کریم ۖ نے موزے بھی پہنے اور ان پر مسح بھی فر مایا ۔اب ہم آتے ہیں محکمہ اوقاف کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔صاف ظاہر ہے کہ محکمہ کی غفلت کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا ہے اور بہتر یہی ہے کہ محکمہ کے ”اندر ” ہی انکوائری ہونی چاہیے کہ اُس وقت ڈائریکٹر کی ذمہ داری کے فرائض کن کے پاس تھے ۔۔۔؟
ذمہ دار عہدوں پر کون متمکن تھے ۔۔۔۔؟اگر انکوائری کا دائرہ محدود کرکے صرف اپنے محکمہ پر ہی مرتکز کیا جائے تو میرے خیال کے مطابق دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔یہ عوام کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت ۖکا عامة الناس میں سے کوئی اُمتی یہ جرات کر سکتا ہے پاکستان میں انکوائریز کی ایک تاریخ ہے مگر آج تک کسی بھی انکوائری کا نتیجہ قوم کے سامنے نہیں لایا گیا اتنے بڑے حساس مسئلہ پر محکمہ اوقاف کی خاموشی ۔۔۔چہ معنی دادر ؟وزیر اوقاف جناب ِ عطا مانیکا صاحب سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دے کر دارین میں سعادت حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت ۖ کی شفاعت بھی حاصل کریں آستانہ عالیہ چورہ شریف کے لاکھوں وابستگان کا تعاون لمحہ بہ لمحہ آپ کے شامل ِ حال رہے گا اور دُعا ہے کہ بہت جلد نعل مبارک کی با زیابی ہو تاکہ اُمت مسلمہ بے چینی سے نکل کر اطمینان اور سُکھ کا سانس لے
Pir Syed Mohammad Kabir Ali Shah Geelani
تحریر : پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی مجددی 03314403420