سقوط ڈھاکہ، اسباب، اسباق اور نجات کا راستہ

Sakoot e Dhaka

Sakoot e Dhaka

تحریر : محمد عبداللہ
سر شرم سے جھکے ہوئے تھے، نگاہیں بارِ ذلت سے زمین میں پیوست ہوئی جاتی تھیں… چہرے عرق ندامت سے بھیگے جاتے تھے… اس پر مستزاد یہ کہ اردگرد کھڑے لاکھوںافراد کے ہجوم کے طعنے اور ذلت بھرے نعرے احساس شرمندگی کو بڑھاوا دے رہے تھے… اہل درد کے دل و دماغ دھماکوں کی زد میں تھے… بات ہی کچھ ایسی تھی کہ وہ قوم صدیوں سے ناقابل شکست مانی جاتی تھی … دنیا کے ہر خطے میں بہادری کے جوہر دکھا کر اسلام کے پھریرے کو لہرایا تھا… جس نے کبھی میدان جنگ میں شکست تسلیم کرنا سیکھا ہی نہیں تھا… آج وہ ہتھیار ڈال کر اللہ کے باغیوں کی واضح فتح کو تسلیم کرنے کھڑی تھی۔ اس قوم کی سپاہ کا سالار اپنے دشمن ہم منصب کو سلیوٹ کر کے قوم کی غیرت کے جنازے کو کندھا دینے کی تیاریوں میں تھا!قارئین! یہ منظر16 دسمبر1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان کا تھا۔ یہ وہی ڈھاکہ ہے جہاں جمع ہو کر مسلم قیادت نے 1906 میں مسلم لیگ قائم کی گئی تھی۔اسی مسلم لیگ نے آگے چل کر دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ہندئوں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لییایک علیحدہ وطن حاصل کیا تھا ۔مگر آزادی کے صرف 24 سال بعد ہی اس ملک کے عین عالم شباب میں ڈھاکہ کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑ رہا تھا کہ جس ہندو سے آزادی کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر یہ وطن حاصل کیا تھاآج اسیعظیم وطن کا یہ خطہ ، ذلت کے ساتھ اسی ہندو کے ہاتھوں میں دیا جا رہا تھا۔

آخر وہ کون سی وجوہات تھیںکہ آزادی کے صرف 24 سال بعد ہی اس ملک کے حصے کرنے کی نوبت پیش آگئی؟ وہ کون سی مجبوریاں تھیں کہ وہ فوج جس نے صرف چند سال قبل ہی اپنے اس ازلی دشمن بھارت کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا، آج وہی فوج اس دشمن کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی۔ وہ کون لوگ تھے جو محمد علی جناحhکی رحلت کے بعد ہی ملک کے دونوں حصوں کے مابین افتراق و اختلاف کی باتیں کرنے لگے تھے۔ ڈاکٹرصفدر محمود لکھتے ہیںکہ بنگالی سیاستدان دونوں صوبوں کے درمیان موجود ثقافتی اور جغرافیائی بُعدسے پوری طرح باخبر تھے اور انہوں نے اختلافات کی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ دستور ساز اسمبلی کے ایک ممتاز بنگالی رکن ابوالمنصور احمد نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”پاکستان ایک منفرد ملک ہے۔ اس کے دو بازوئوں کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ ہے۔ مذہب اور مشترکہ جدوجہد کے سوا ان کے درمیان کوئی قدر مثلاً زبان، ثقافت غرض کچھ بھی مشترک نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں صوبوں میں وہ مشترکہ اقدار عنقا ہیں جو کسی قسم کی قوم کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔”

قبل اس کے کہ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر بحث کریں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتے ہیں۔ چند دن قبل راقم راولپنڈی میں کچھ دوستوں کے درمیان موجود تھا کہ ایک بھائی کہنے لگا” بھائی میرے تایا جی شوگر کے مریض تھے۔ ایک دن اچانک ان کو ٹانگ پر معمولی زخم آیا مگر انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی، اس کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ چند دن گزرنے کے بعد وہ زخم بگڑ گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ڈاکٹر نے تایا کی وہ ٹانگ ہی کاٹ دی۔” قارئین کرام!یہ مثال یہاں بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں، چھوٹے چھوٹے زخموں کی اگر پرواہ نہ کی جائے اور ان پر کوئی مرہم نہ رکھا جائے تو زخم ناسور میں بدل جاتے ہیں اور بالآخر متاثرہ حصے کو بھی ساتھ لے ڈوبتے ہیں۔ کچھ یہی حال مشرقی پاکستان کا بھی ہواکہ سیاستدانوں کی بے اعتنائیوں اور مغربی پاکستان کے روکھے رویوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں احساس محرومی میں بدل گئیں اور اغیار نے اس کو ہوا دے کر نفرت کے بیج بوئے جو 1970 کے اوائل ہی سے تناور درخت بن کر نفرت و دشمنی کے پھل دینے لگے تھے۔

Pakistan

Pakistan

دراصل صورتحال کچھ یوں تھی کہ قیام پاکستان کے بعد وہ جوش جذبہ سرد پڑ گیا تھا جو تحریک آزادی کے دوران موجزن تھا۔ ان حالات میں دونوں صوبوں کو متحد رکھنے کے لیے گہری فراست، تحمل اور سیاسی رواداری از حد ضروری تھی مگر بدقسمتی سے محمد علی جناح h اور لیاقت علی خاں h کے بعد کے سیاستدان اس بصیرت سے عاری تھے۔
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن مرکزی حکومت کی بعض غلط اور بچگانہ پالیسیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس احساس کو پروان چڑھانے کی بھرپور سعی کی۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے دونوں صوبوںکے درمیان یکجہتی اور اتحاد کی ضامن قوت ، اسلامی اخوت تھی مگر مقام افسوس ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دونوں صوبوں کو جوڑے رکھنے کی اس سب سے بڑی قوت سے صرف نظر کیا گیا۔

سیاستدانوں کی سیاست کا محور صوبائی، علاقائی، اور محدود اقتصادی مفادات تھے۔ نتیجتاً نظریہ پاکستان سے دوری اور اسلامی شرعی قوانین سے فرار دونوں صوبوں کے درمیان تعلقات میں کمزوری کا موجب بنا۔ اقتصادی مفادات اور ثقافتی حقیقتوں کو مذہب اور دوقومی نظریہ پر فوقیت دی گئی تو لسانیت اور علاقائیت کے جن بھی اپنا سر اٹھانے لگے۔ دونوں صوبوں کے درمیان تعلقات کی خرابی میں بہت بڑا کردار لسانیت اور صوبائیت کابھی تھا۔ 1965ء میں ہی ”بنگال بنگالیوں کا ہے ”کے نعرے سنائی دینے لگے تھے اوراس سے بھی قبل بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کے لیے تحریکیں شروع ہوگئیں، جنہوں نے مرکز سے مشرقی اکائی کو دور کرنے میں اہم کردار کیا۔ اسی طرح مشرقی پاکستان کے لوگوں میں احساسِ محرومی کو انتظامی اور سرکاری عہدوں پر مغربی پاکستان کے لوگوں کی اکثریت نے بڑھا یا۔ آبادی کے اعتبار سے مشرقی پاکستان برتری پر تھا مگر انتظامی عہدوں اور فوج میں بھرتیوں وغیرہ کے معاملے میں مغربی پاکستان کے لوگوں کا پلڑا بھاری تھا۔ چنانچہ دونوں صوبوں کے درمیان عدم مساوات نے مشرقی پاکستان کے عوام میں بددلی اور اضطراب کو جنم دیا۔ اس پر انہوں نے احتجاج کا آغاز کر دیا کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا جا رہا ہے اور مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی نو آبادی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح مشرقی پاکستان کے لوگوں کی ایک اور بہت بڑی شکایت یہ تھی کہ محنت وہ کرتے ہیں جبکہ فائدہ مغربی پاکستان کو جاتا ہے۔ مرکزی حکومت نے مشرقی پاکستان کی معاشی بدحالی کے ازالے کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھولنے کے بجائے مغربی پاکستان میں ہی صنعتوں کے قیام کے لیے سارا سرمایہ لگادیا۔ مشرقی پاکستان سے خام مال ملتا تھا جبکہ اس کی زیادہ تر مصنوعات مغربی پاکستان ہی میں بنتی تھیں۔ اس صورتحال نے بھی مشرقی پاکستان کے لوگوں میں مغربی پاکستان کے بارے میں غلط فہمیوں کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کیا۔مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے علیحدگی میں ایک اوربہت بڑا سبب اسلامی طرز سیاست کو پس پشت ڈال کر جمہوری سیاست کا نفاذ تھا۔ اس جمہوری سیاست نے غلط فہمیوں کے بیجوں کو نفرت کے تناور درختوں میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اسی جمہوری سیاست کے تالاب میں ڈبکیاں لگانے والے بعض عاقبت نا اندیش سیاستدانوں نے نفرت کی خلیج کو وسیع کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ ”اِدھر ہم اُدھر تم” کا نعرہ لگا کر مشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدگی اور تقسیم پاکستان کی راہ دکھانے والے یہی سیاستدان تھے جن کو ملکی اور ملی مفادات سے بڑھ کر اپنی کرسی اور اپنی سیاست عزیز تھی۔ ان کے نزدیک ان کی سیاسی مسند کی حیثیت کے سامنے قومی مفادات کی کچھ اہمیت نہ تھی۔ وہ اپنی مسند اور سیاست بچانے کے لیے ملک کو تقسیم کرنے کی قربانی دینے پر تیار ہو چکے تھے۔

1971 War

1971 War

اسی طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں گھنائونا کردار ادا کرنے والے وہ عالمی غنڈے تھے جو اپنے نظاموں اور ملکوں کے دفاع کی خاطر کمزور ملکوں کو ہولناک جنگوں میں دھکیلنے اور ان کی سا لمیت کی دھجیاں اڑانے کی منصوبہ بندیاں کر رہے تھے۔اس کے علاوہ تاریخ کے اوراق میں سی آئی اے اور جرمن فیچر ایجنسی کے بنائے ہوئے منصوبے ایک عرصے تک گردش کرتے رہے جن کا منصوبہ یہ تھا کہ کیمونزم کو جنوب مشرقی ایشیا میں روکنے کی صرف ایک صورت ہے کہ اس خطے میں ایک ایسی ریاست بنائی جائے جو کچھ ریاستوں کا اتحاد ہو اور اس کی قیادت بھارت کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ اس منصوبے کے لیے 1969ء کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ اس کی تائید ”کھلنا” کے اخبار ”The View”کی اس رپورٹ سے بھی ہوتی ہے کہ امریکن سی آئی اے کی خاتون رکن مس جین ڈکسن نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ مشرقی پاکستان میں نومبر، دسمبر 1969 میں دس لاکھ افراد مارے جائیں گے۔سامراجی قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے بھرپور تیاریاں کیںاور لاکھوں ڈالر پانی کی طرح بہائے۔

قارئین کرام! ایک بہت اہم بات کہ سقوط ڈھاکہ کا تجزیہ کرتے وقت اس کا وبال صرف چند ارباب اقتدار پر ہی ڈال دینا حقائق کے منافی ہے، بلکہ اس سانحے کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں بیرونی اسباب کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کس طرح ہمارے پڑوسی اور ازلی دشمن بھارت جس کی آنکھوں میں ہم روز اول سے ہی کھٹک رہے ہیں، دن رات ہمارے خلاف سازشوں کے جال بننے اور نقصان پہنچانے کے لیے مصروف عمل رہتا تھا۔ اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دنیا میں بے توقیر کیا جائے اور یہ آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود نہ رہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت نے اپنے تمام تر ذرائع استعمال کیے اور کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اچانک سے رونما نہیں ہوا تھا بلکہ بھارت نے ہمارے خلاف بھرپور منصوبہ بندی کی تھی۔ مغربی پاکستان میں عصبیت اور مشرقی بازو کے اندر قومیت کے بیج بوئے۔ اس مقصد کے لیے کراچی اور اسلام آباد میں امریکہ اور برطانیہ کے قونصل خانے استعمال ہوئے تجوریوں کے منہ کھولے گئے اور ابن الوقت سیاستدانوں سے کام لیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں عوام کو پاکستان مخالف جذبات پر ابھارنے کے لیے بھارت نے ان ہندوئوں کو استعمال کیا جو تقسیم برصغیر کے وقت اپنے خاندانوں کو بھارت بھیج کر خود مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر تھے۔

ان کے ذریعے بھارت سے پاکستان مخالف لٹریچر اور زہریلا مواد مشرقی پاکستان پہنچتا اور دوسری طرف دولت اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کو پیسے کے زور پر خرید کر ان کو عوام میں پاکستان سے نفرت کے جذبات پیدا کرنے کا کام سونپا گیا۔ اسی اثناء میں 70ء کے انتخابات منعقد ہوئے جن میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ بھاری اکثریتی جماعت کی صورت میں سامنے آئی اور جمہوری اصولوں کی روسے حق بھی اسی کا تھا کہ وہ حکومت سازی کرے۔ مگر مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والوں کو قطعاً گوارانہ تھا کہ وہ حکومت سے محروم رہیں۔ وہ ہر حال میں حکومت میںآنا چاہتے تھے اس کے لیے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کو منانے کی کوششیں شروع کی گئیں جس کے جواب میں اس نے اپنے 6نکات سامنے رکھے جن کی بنیاد پر اس نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں اور نفرت کی خلیج بڑھتی گئی جس میں بہت بڑا ہاتھ بھارت کابھی تھا۔ اس نے مذاکرات کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ دوسری طرف بھارت ایک کثیر سرمایہ خرچ کر کے بنگالیوں کو مکتی باہنی کی صورت میں عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔ جس کے بل بوتے پر مکتی باہنی والوں سے مشرقی پاکستان میں شورش اور بغاوت شروع کروائی گئی۔ کیفیت یہ تھی کہ مکتی با ہنی کے غنڈوں اور درندوں نے مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنا شروع کردی تھی۔محب وطن پاکستانیوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ کسی کی بھی عزت و جائیداد محفوظ نہ تھی۔

Pakistan Army

Pakistan Army

ان حالات میں پاکستانی فوج نے حالات کو درست کرنے کے کیے آپریشن شروع کیا اور بقول جنرل اسلم بیگ:”مشرقی پاکستان میں جب مزید فوج کی ضرورت ہوئی تو ہمارا ایک ڈویژن کھاریاں سے ہوائی جہازوں کے ذریعے 30 مارچ کو ڈھاکہ پہنچا اور سلہٹ سے لے کر چٹا کانگ تک کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ہمارے پاس صرف رائفلیں اور لائٹ مشین گنیں تھیں۔توپ خانہ تھا اور نہ ہی ٹینک۔ اس طرح وہاں کل چار ڈیژن فوج نے مارچ سے اگست تک صرف پانچ ماہ کی مدت میں پورے مشرقی پاکستان پر حکومت کی رٹ قائم کر دی اور شہروں، قصبوں اور گھروں پر صرف پاکستانی پرچم ہی نظر آنے لگا ۔ اس وقت ہمارے جنرل کمانڈنگ آفیسر جنرل شوکت رضا نے جو عسکری دانشور مانے جاتے تھے،اپنی سفارشات پیش کیں کہ فوج نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اس لیے لازم ہے کہ اب سیاسی عمل شروع کیا جائے اور سول انتظامیہ اپنی ذمہ داری سنبھالے۔مگر ان کی سفارشات کو رد کر دیا گیا اور عوامی لیگ کو حکومت سازی سے روک دیا گیا جس پر بھارت نے مکتی باہنی اور فوج کے ساتھ ایک بار پھر پاکستان پر چڑھائی کر دی جس کے ساتھ ہی عوام کے دلوں میں سالوں سے پکتے نفرت کے لاوے پھٹ گئے، آندھیاں اور بگولے طوفان میں بدل گئے مشرقی پاکستان ایک بار پھر جنگ کے ہولناک سایوں کی لپیٹ میں آگیا۔ پاکستانی فوج نے معاملات سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی مگر اب پانی سرسے گزرچکا تھا جس کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں تھا۔”

بالآخر باقی ماندہ پاکستان کو بچانے اور مسلمانوں کے لہو کے دریا کو روکنے کے لیے مسلم امہ کی چودہ سوسال کی تاریخ میں وہ سیاہ دن بھی آیا کہ جب 16دسمبر 1971کو مسلمان فوج کافروں کے سامنے سرینڈر کر چکی تھی۔پاکستان اپنے عین عالم شباب میں دولخت ہو چکا تھا۔ امت مسلمہ غم میں ڈوبی ہوئی تھی اور بھارتی ہندو خوشی کے شادیانے بجاتے نہیں تھکتے تھے کہ انہوں نے تقسیم برصغیر اور 65 کی ہزیمت کا بدلہ لیا تھا۔ اندرا گاندھی بڑھکیں مار رہی تھی کہ ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔بھارت کا موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی آج فخر سے اعتراف کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام میں سب سے اہم کردار بھارت کا ہے، پچھلے دنوں بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے یہ اعتراف گناہ بڑی ڈھٹائی اور فخر سے کیا۔

Pak Amry

Pak Amry

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے اس سیاہ ترین باب اور اس کے حقائق سے نظریں چرانے کے بجائے، اپنی غلطیوںاور کوتاہیوں کا جائزہ لیں کہ کہیں ملک کے اشتعال زدہ علاقوں کے معاملات میں کہیں غفلت کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ ان علاقوں میں چلتی علیحدگی کی تحریکوںاور دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملنا اور بھارتی حکمرانوں اور ذمہ داران کی وقتاً فوقتاً پاکستان کو سندھ کارڈ،بلوچستان وغیرہ پر دی جانے والی دھمکیوں کی حقیقت پر توجہ دینی چاہیے اور ان علاقوں میں اپنی غفلتوں کا تدراک کر کے اور مئوثرلائحہ عمل ترتیب دے کر بھارتی سازشوں کو بے نقاب اور ناکام کرنا چاہیے۔ دوسری طرف ان علاقوں کے ناراض لوگوں کو مزید کسی نقصان سے بچتے ہوئے ابھی سے قومی اور سیاسی دھارے میں شامل کرنا چاہیے۔ ان علاقوں کی معاشی بدحالی دور کرنے کے لیے مختلف منصوبے وغیرہ شروع کرنے چاہئیں تاکہ سقوط ڈھاکہ جیسے حادثات سے بچ سکیں۔

تحریر : محمد عبداللہ