تحریر : شہزاد حسین بھٹی ہوس مال و زر نے انسانیت کے احترام کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں۔ علم جو شعور کی آگاہی کا سرچشمہ تھا اُسے آج جہالت کے در کی لونڈی بنا دیا گیا ہے ۔ آج سے چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبیۖ نے جو علم و تربیت اور شعور کی آگاہی ہمیں عطا کی تھی ہم اُسے بھول کر اندھیرے میں ٹکراتے پھر رہے ہیں۔ نفسانفسی کے اس دور میں رشتوں کی پہچان ختم ہو کر رہ گئی ہے بے حیائی و عریانی نے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ایک اسٹیج ڈانسر کو سبق سکھانے کے لیے کرائے کے قاتلوں سے گولیاں مروا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ جنوبی پنچاب سے مسلم لیگ ن کی متحرک کارکن چنبہ ہائوس میں مردہ پائی گئی ۔ حالانکہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس خاتون کو خصوصی سیٹوںپر منتخب ہونے کے لیے اپنی خوبصورتی کا سہارہ لینا پڑا اوربل آخر ہوس پرست درندوںکے لیے جان کی قربانی بھی دینی پڑی جبکہ اُس خاتون کے مردہ ضمیر خاوندکا موقف بھی عقل و فہم سے بالا تر نظر آتا ہے۔
ہمارے رنگین مزاج سیاستدانوںکا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ آخری مغل بادشاہوں کی طرح اپنی تفریح طبع کا ساماں پیدا کرنے کے لیے بعض خوبرو چہروں کا سہارا لے کراسمبلیوں میںرنگینیاں پیدا کیے ہوئے ہیں۔ بیڈ روموں سے اُٹھ کر اسمبلیوں تک آنے کے طعنے ایک دوسرے کوخواتین ہی دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ہوس پرستی کی یہ روش ہمیں محمد شاہ رنگیلا کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے “دہلی دور است”کے نعرہ رندانہ سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ آج ایک مخصوص طبقہ ہی ہر طرف نظر آ رہا ہے۔ خوبرو عورتوں کو ترقی کا سہارا بنا کرہر سوایسے بدنما چہرے نظر آتے ہیں جنکو مخصوص کوٹھوں تک ہی محدود ہونا چاہیے تھا آج وہ ارباب اقتدار پر بیٹھے پاکستان کے غیر تمند اور غیور عوام کی تقدیر کے فیصلوںپر مامور ہیں۔ آج بھی کئی جنرل رانیاں ہر سو نظر آ رہی ہیں۔ اور اسلام کے نام پر لیے جانے والے ملک پاکستان کی نظریاتی اساس کو کھوکھلاکررہی ہیں۔
آج سولہ دسمبر ہے یہ وہ د ن ہے جس دن پاکستان دولخت کردیا گیا تھا قصور کس کا تھا اس کا فیصلہ تو مورخ کرے گا۔ تاہم ذیادتی تو دودونوں طرف سے ہوئی ہو گی۔ہمیں یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ نوبت اس مقام تک کیوں پہنچی تھی؟ ہتھیار کسی بھی قوم کو فتح سے ہمکنار کرنے کے لیے کافی نہیںہوتے اس کے لیے دلوں پر حکومت ضروری ہوتی ہے۔ جب دل ہی مردہ ہو جائے تو پھر ہتھیار تو محض غلام بنانے کے کام ہی آتے ہیں۔اگر صدیق سالک کی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” پڑھیں تو کافی حد تک مشرقی پاکستان کے مسائل سمجھ میں آتے ہیں۔ اور اگرالزامات کا دفاع جنرل نیازی کی کتاب”مشرقی پاکستان کی غداری” پڑھیں تو اُن کے دلال کا پلڑہ بھی بھاری دیکھائی دیتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی قوم کے مستقبل کا فیصلہ جمہوری انداز میں نہیں ہوتا تو پھر ملٹری ایکشن ناگزیر ہو جاتا ہے ۔پاک فوج نے ہمیشہ اس وطن کے دفاع کے لیے آخری حد تک گئی ہے۔
Sakoot e Dhaka
حمود الرحمن کمیشن کی جوغیر حتمی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس میں بھی جنرل نیازی کو اس شکست کے اسباب میںکافی بڑا ذمہ دار قرار دیا گیاحالانکہ ایک شخص ہی سارے فسانے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔جنرل نیازی آخر وقت تک اپنی پوزیشن کا دفاع کرتے رہے اور موت کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے محض چند ہفتہ قبل انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ ‘وہ فوج کے سسٹم کا ایک چھوٹا سا حصہ تھے اس لیے انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے احکامات پر عملدرآمد کیا حالانکہ ان کا ذاتی خیال یہ تھا کہ وہ مزید لڑ سکتے تھے اور بھارتی فوج کو ایک لمبے عرصے تک الجھائے رکھ سکتے تھے۔ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ پاکستان آرمی نے مشرقی پاکستان میں 3 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی۔ یہ الزام بھی دہائیوں تک پاکستان آرمی نے ناکردہ گناہ کی طرح برداشت کیا ۔ کہتے ہیں کہ سچ ہمیشہ سامنے آ کر ہی رہتا ہے۔ انڈین پروفسیر شرمیلا بھوس نے 1971 کے عصمت دری واقعات کی سٹڈی کی اور اس اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ صرف ایک پروپیگنڈہ تھا جو صرف پاکستان آرمی کو بدنام کرنے کے لیے تھا۔ اور اس بات کی تصدیق جناب صدیق سالک کی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” سے بھی ہوتی ہے۔
آج ہم سقوط ڈھاکہ کے زخم چاٹ چاٹ کر اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے اسی روش پر چل نکلے ہیں جو ہمیںگہری کھائی کی طرف دکھیل رہی ہے۔جس قوم نے بھی اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھا ہو وہ قومیں ہمیشہ تباہی و بربادی کا ہی پیش خیمہ بنتی ہیں۔یہ قانون فطرت ہے کہ جب لاقانونیت کی انتہا ہو جائے تو پھر قدرت کا ایک قانون حرکت میں آتاہے۔جس کے آگے انسان کی تمام تدبیریں رائیگاں جاتی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ قدرت کی طرف سے ہمیں جو مہلت ملی ہوئی ہے اس کو غنیمیت جانتے ہوئے انسانیت کی بقا اور بھلائی کے لیے کام کریںاور خداداد پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
سید ولی محمد نظیر اکبر آبادی کے بقول سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں،مت دیس بدیس پھر مارا قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھارا کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر،کیا آگ دھواں کیا انگارا سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپر نقارے نوبت بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپر سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن ٹک غافل دل میں سوچ ذراہے ساتھ لگا تیرے دشمن کیا لونڈی باندی دائی دواکیا بند چیلا نیک چلن کیا مندر مسجد تال کنویں کیا گھاٹ سرا کیا باغ چمن سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا جب مرگ بنا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سینے اورٹانکے گا ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو ء اک لحد کی پھانکے گا اس جنگل میں پھر آھ نظیر اک بھنگا آن نہ جھانکے گا سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا سید ولی محمد نظیر اکبر آبادی ٥٢٧١۔۔۔۔۔٠٣٨١