اسلام آباد (جیوڈیسک) امریکا کی جانب سے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دینے پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فورسز سے برسر پیکار عسکریت پسند اپنی آزادی کے لیے جائز جد وجہد کر رہے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی طرف سے سید صلاح الدین کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق ،’’بھارت کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں کشمیری عوام کی اپنی آزادی کے لیے ستر سال سے جاری جدو جہد جائز ہے۔ پاکستان کشمیری شہریوں کی اپنے حق خود ارادیت کے لیے جدو جہد کی حمایت کرنے والے افراد کو دہشت گرد قرار دینےکو مکمل طور پر ناجائز سمجھتا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سید صلاح الدین کے ایک ترجمان سے، جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قیام پذیر ہیں، فون پر رابطہ کرنا چاہا جو ممکن نہیں ہو سکا۔
امریکی وزارت خارجہ نے سید صلاح الدین پر پابندیاں ایک ایسے وقت میں عائد کی ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پیر کی شام ملاقات کے علاوہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
بھارت اپنے زیر انتظام مسلم اکثریتی کشمیر میں حکومت کے خلاف اٹھائیس سالہ مسلح مزاحمت کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ اب مودی حکومت نے اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے عالمی سطح پر اپنی کوششوں کو تیز کیا ہے۔
گزشتہ روز وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ انڈیا اور امریکا، پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک پر دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔
کشمیر میں 80ء کی دہائی کے وسط سے 90ء کی دہائی کے اختتام تک ’جہادی گروپ‘ بہت زیادہ سرگرم عمل رہے۔ یہ گروپ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں تھے۔ اس مسلح جدوجہد کے دوران وہاں ہزاروں افراد مارے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ پاکستان پر ان مسلح علیحدگی پسند گروپوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیریوں کی محض سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔