اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی میں کل بروز منگل ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں آئندہ مہینے پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ قرارداد حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کی طاہرہ بخاری نے پیش کی۔ پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کی جانب سے کچھ مخالفت کے باوجود تمام دوسری سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد کی حمایت کی۔
پارلیمانی سیکریٹری نے ایوان کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت موجودہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے تمام ملازمین کو بہتر ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے افراطِ زر کی شرح ایک سطح پر برقرار رکھتے ہوئے مہنگائی پر قابو پایا ہے۔
اس کےعلاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 155 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سلیم بلوچ اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر وفاقی حکومت تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرتی تو صوبائی حکومتیں بھی اس میں اضافہ نہیں کریں گی۔ ایوان میں جمشید دستی سمیت کچھ اراکین نے مطالبہ کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم سے کم 50 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔
اس سے قبل اراکین نے سات اراکین کے نجی بلز پیش کیے گئے، اور ان تمام پر مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ ان سات بلوں میں سے چار جمیعت علمائے اسلام ف ( جے یو آئی ایف) کی آسیہ ناصر کی جانب سے پیش کیے گئے۔
آئینی ترمیمی بل 2014ء مشترکہ طور پر 16 رکنِ اسمبلی نے پیش کیا جس میں آئین کے آرٹیکل 37 (ایچ) میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ مذہبی تہواروں پر غیر مسلموں کو شراب کی خرید و فروخت کی اجازت نہ دی جائے۔
اس بل کی حمایت میں آسیہ ناصر کا کہنا تھا کہ ہندو اور عیسائی سمیت کسی بھی مذہب میں مذہبی تہواروں کے موقع پر شراب پینے کی اجازت نہیں ہے اور اقلیتیوں کے حقوق کے نام پر لوگ اس کا استعمال کررہے ہیں۔
دہشت گردانہ سرگرمیوں (خصوصی عدالتوں) کے ترمیمی بل 2014ء اور ٹیلیگراف ترمیمی بل 2014ء کے حوالے سے آسیہ ناصر نے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کو سزائیں دی جانی چاہیں جو موبائل فون ایس ایم ایس، انٹرنیٹ اور فون کالز کے ذریعے دھمکی آمیز پیغامات ارسال کرتے ہیں۔ انہوں نے گھروں میں کام کے دوران خواتین کو ہراساں کرنے واقعات کے خلاف ایک ترمیمی بل 2014ء پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی قانونی ملازمین میں شامل کرنا چاہیے۔