اسلام آباد(جیوڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام سے موجودہ مالی سال کے دوران ٹیکس وصولیوں میں 70 ارب روپے کی کمی ہوئی، حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد سے زیادہ اضافہ برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ اس سے بجٹ خسارہ بڑھے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کی چیئر پرسن نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ 300 ارب روپے کے گردشی قرضے اب بھی موجود ہیں، مہنگائی کے مقابلے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کم ہے، زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کیلیے بجٹ دستاویزات میں ذکر تک نہیں تاہم قائمہ کمیٹی نے زرعی ترقیاتی بینک کے کیپٹل کو 50 فیصد بڑھانے اور پروڈیوس انڈیکس یونٹ کی بنیاد پر زرعی قرضے کی کریڈٹ ڈبل کرنے کی منظوری دے دی۔
کمیٹی کو وفاقی بجٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے اسحاق ڈارنے بتایا کہ ٹیکس وصولی کا ہدف 2387 ملین تھا، جو 2 بار کم ہو کر 2050 تک چلا گیا، بد قسمتی سے وصولیاں 1946 ارب کی ہوئیں، ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹیکس وصولیوں کا خسارہ 104 ارب کا ہے، ایس آر اوز میں پیٹرولیم منصوعات پر ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے، چھوٹ ختم کر دی تو قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا، اجلاس میں الیاس بلور، اسلام الدین شیخ، سلیم ایچ مانڈوی والا، صغریٰ امام اور دیگر نے شرکت کی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نظر ثانی شدہ ٹیکس ہدف 2275 ملین اس سال حاصل کر لیں گے، دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں بھارت کے این او سی کی ضرورت نہیں، کمیٹی اراکین کلثوم پروین، ہمایوں مندوخیل، فتح محمد حسنی نے ترقیاتی بجٹ میں فنڈز کم رکھنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز میں اضافے کی تجویز دی، طلحہ محمود نے کاروباری افراد اور گروپس کو ٹیکس ریفنڈ کی رقم جلد ادا کرنے کیلیے قوانین میں نرمی کی تجویز دی، الیاس بلورکا کہنا تھا کہ گندم امپورٹ ہو رہی ہے
گیس انفرا اسٹرکچر ایکٹ کو فنانس بل سے نکالا جائے، وزیر خزانہ نے کہا کہ 25 لاکھ ریٹیلرز میں سے 5 سے 7 لاکھ کو آسان طریقے سے رجسٹر کیا جائے گا، 30 ہزار کاروباری افراد میں سے 21 ہزار کو 45 دنوں کے اندر ریفنڈ ادا کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔