وطن عزیز میں اشرافیہ اور بالا دست طبقات کو ہر دور میں سہولیات پہنچانے کے لیے پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ جس سے ان کے لیے مزید اسانیاں دستیاب ہوئیں۔ انہوں نے نہ صرف بڑے پیمانے پر کاروباروں کو فروغ دیا بلکہ ملکی بینکوں اورمالیاتی اداروں سے اپنے کارخانے و کاروباروں کے لیے کم شرح سود اور آسان اقساط پر لیے گئے قرض بھی بڑی مہارت سے معاف کر وا لیے اور اپنے منافع بخش کاروباروںکو دیوالیہ ظاہر کرکے ان مالیاتی اداروں اور در حقیقت قومی خزانے کو چونا لگا دیا۔ جبکہ اربوں روپے کے قیمتی اثاثہ جات بیرون ممالک منتقل کر کے اپنی آئندہ نسلوں کے لیے دیار غیر میں بہترین منافع بخش کاروبار شروع کیئے گئے۔ یہ بھیانک کھیل گزشہ 72سالوں سے جاری و ساری ہے۔ اور ہر حکومت اور حکمرانوں کے چہیتے اس کھیل میں حصہ لیتے آئے ہیں۔ مگر اس ملک میں اگر کوئی غربت کی چکی میں پس رہا ہے تو وہ کم آمدنی والا طبقہ اور چھوٹے ملازمین ہیں۔
جنہیں سہولیات پہنچانے کے لیے بڑے ایوانوں میںبیٹھنے والوں نے کبھی سوچا تک نہیں اور سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے نمائندگان اس محروم طبقہ کی محرمیوں و مسائل کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ انہو ں نے غربت کی جھک تک نہیں دیکھی اگر ان کم آمدنی والے طبقات کو کوئی ملکی مالیاتی ادارہ یا پرائیویٹ بینک قرض کی سہولت فراہم بھی کرتا ہے تو بھاری سود اور شرائط کے عوض ان افراد کی زندگیاں اجیرن بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس سودی قرض کی قسطیں ادا کر تے ہیں ۔ بعض اوقات تو قرض لینے والا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے مگر اس کی بیوہ اور یتیم بچوں کو قرض بمعہ سود کی ادائیگی یقینی بنانا پڑتی ہے۔
اپنے اہل خانہ کے لیے سائباں بنانے کے لیے ہائوس بلڈنگ فنانس کاروپوریشن سے لیا گیا قرض ہو یا چھوٹے ملازمین کے لیے حکومتی و دیگر بینکوں کی ایڈوانس سیلری سکیم پستا ہمیشہ یہی کم آمدنی والا چھوٹا طبقہ ہی ہے جسے قرض سے کئی گنا زیادہ رقم واپس کرنا پڑتی ہے۔ سرکاری ملازمین گھروں کی تعمیر ، اپنے بچے بچیوں کی شادیوں و دیگر مجبوریوں کی صورت میں بینکوں کی ایڈوانس سیلری لون سکیم کا سہارا لیتے ہیں ۔ اور بینک انہیں بخوشی ایک مشکل طریقہ کار عبور کروانے کے بعد اس ملازم کو بیس تنخواہوں کے برابر رقم بطور قرض فراہم کر دیتے ہیں۔ جو آئندہ پانچ سال تک اس ملازم کی تنخواہ میں سے قسط کی صورت میں وصول کی جاتی ہے۔ جو عموما اس کی تنخواہ کا چالیس فیصدہوتی ہے۔
تنخواہ والے سرکاری ملازمین مہنگائی ودیگر مسائل کی وجہ سے بمشکل گزر اوقات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس قرض کا حصول اور تنخواہوںمیں سے مسلسل پانچ سال تک بھاری قسطوں کی کٹوٹی کی وجہ سے معاشی طورپر مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کے لیے آئے روز مزید مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جو سرکاری ملازم انتہائی مجبوری کی وجہ سے یہ قرض لیتے ہیں انہیں قرض کی واپسی کی صورت میں کئی گنا زیادہ اداکر نا پڑتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ قرض لینے والے ملازم کو واپسی کی صورت میں پانچ لاکھ ادا کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لیے ہرماہ اسے اپنی تنخواہ کا چالیس فیصد حصہ قربان کرنا پڑتاہے ۔ اہل و عیال کی جائز ضرورت کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے۔
اس وطن عزیز کو ریاست مدینہ کا رول ماڈل بنانے کی سوچ رکھنے والے وزیر اعظم عمران خان نیازی سے میرا مطالبہ ہے کہ کم آمدنی والے طبقات خصوصا چھوٹے ملازمین کے لیے بینکوں سے لیے جانے والے سیلری لون پر شرح سود ختم کی جائے کیونکہ قرض تو ان لوگوں نے ہر واپس کرنا ہوتا ہے ان کی تنخواہیں انہی بینکوں کی وساطت سے وصول ہوتی ہیں مہنگائی، غربت و افلاس کا شکار اگریہ طبقہ انتہائی مجبوری کی صورت میں بینکوں کی اس سکیم سے استفادہ کر تاہے تو اسے بھاری سود سے نہ کچلا جائے اور انکے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ ایڈوانس سیلری لون سکیم پر سود ختم کرنے سے ان افراد کی زندگیوں میںخوشحالی آئے گی اور موجودہ حکومت و وزیر اعظم کے لیے دعاگو رہیں گے۔