فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری کردہ مشرق وسطیٰ کے نام نہاد امن منصوبہ ‘ڈیل آف دی سنچری’ پر فلسطینیوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے امریکی امن پروگرام یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے ’’فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی نئی چال قرار دیا ہے۔‘‘
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی امن پروگرام نہیں بلکہ امن کے نام پر فلسطینی قوم سے سے ایک دھوکہ ہے جسے کوئی فلسطینی قبول نہیں کرے گا۔
عباس نے اس منصوبے کو سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کوئی حق نہیں کہ وہ فلسطینی قوم کے حقوق پر سودے بازی کریں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ منصوبہ “منظور نہیں ہو گا اور دیگر سازشی منصوبوں کی طرح یہ بھی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا’۔
رام اللہ میں فلسطینی قیادت سے ملاقات میں صدر عباس نے کہا کہ امریکا کا منصوبہ صدی کی ڈیل نہیں بلکہ صدی کا طمانچہ ہے مگر ہم انشاء اللہ اس طمانچے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ دیگر سازشوں کی طرح اس سازش کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یروشلم برائے فروخت ہر گز نہیں۔ ہم اپنے دیرینہ حقوق پر کسی کو سودے بازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
محمود عباس نے کہا کہ امریکا کے امن منصوبے کی سازش ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کیا گیا ہے۔ اگر القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا جاتا تو ہم بھی یہ منصوبہ قبول نہیں کریں گے۔ کوئی عرب، مسلمان یا عیسائی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرے گا۔
صدر عباس نے ہماری حکمت عملی مشرقی یروشلم سمیت فلسطین کے تمام دیگر علاقوں سے اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ قبضے کو ختم کرانے کے لیے جاری رہے گی۔ ہم امریکا کے منصوبے کے خلاف فوری طورپر وہ تمام اقدامات اٹھائیں گے جو ہمیں اپنے حقوق کے لیے اٹھانے ہیں۔
فلسطینی تنظیم ‘حماس’ نے امریکا کے نام نہاد امن منصوبے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔ امریکی صدر کے منصوبے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فلسطینی قوم کے ساتھ مل کر امریکا کے امن منصوبے کو ناکام بنائے گی۔
حماس کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم القدس کے بغیر فلسطینی ریاست کے وجود کو قبول نہیں کریں گے۔ فلسطین کا ایک ایک چپہ صرف فلسطینی قوم کا ہے جس پر کسی دوسری قوم کو مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہماے ہاتھ، ہماراخون، ہماری بندوقیں اور ہمارے لوگ سب مل کر امریکا کے ناپاک منصوبے کو کوڑے دان میں پھینک دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے تاریخ، اخلاق اور انسانی اقدار کو پامال کیا ہے اور ان کا ظلم تمام سرخ لکیریں عبور کرگیا ہے۔
خلیل الحیہ نے کہا کہ بیت المقدس ہی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو گا۔ فلسطینی مہاجرین کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس بسانے کا حق دیا جائے گا۔ فلسطینی قوم صبر اور استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھ کر اپنے دیرینہ حقوق حاصل کرکے رہے گی۔
حماس کے ایک دوسرے رہ نما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے ٹویٹر پراپنے بیان میں کہا کہ ہم امریکا کے امن منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ ایک سازش ہے اور ہم اس سازش کے خلاف بھرپور طریقے سے مزاحمت کریں گے۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے تیار کردہ منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی فلسطین کے مختلف شہروں میں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
فلسطینی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق غرب اردن میں فلسطینیوں نے امریکی صدر کے اعلان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں۔ ان مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ جمعرات اور بدھ کی درمیانی شب مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
شمالی الخلیل میں فلسطینی نوجوانوں کے ایک گروپ اور اسرائیلی فوج کے درمیان بھی تصادم ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر لاٹھی چارج، براہ راست فائرنگ اور اشک آور گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد فلسطینی زخمی ہوگئے۔