تحریر : انجینئر افتخار چودھری لگتا ہے اس بھائی نے قسم کھا رکھی ہے کہ سونے سے پہلے ایک کالم لکھنا ہے جس میں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لینا ہے۔ان سے جڑے لوگوں پر تنقید ہی نہیں کیچڑ اچھالنا ہے ہے۔ اچھالنا بھی اس ترنگ سے ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو ایک ولن کی شکل میں پیش کیا جائے۔ موصوف آج نہیں ایک عرصے اس کار بے بنیاد میں مصروف ہیں۔ چلیں ہم ان کی ماضی کی روداد سیاہ پر قلمقاری نہیں کرتے ان کے حالیہ کالم پر بات کرتے ہیں۔ پہلی بات ہے انہیں اس بات پر بڑا دکھ ہے کہ پاکستانی میڈیا ان کو (عمران خان) پذیرائی بخشتا ہے ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پروگراموں کی ریٹینگ وینا ملک کے پروگرام سے کچھ کم ہے۔
واہ جی واہ اس زلف پے پھبتی شب دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
وینا ملک شوبز میں جس حوالے سے مشہور ہوئیں وہ سب کو علم ہے اس کے مقابلے میں ایک شخص جس نے کھیل کے میدان میں ہی نہیں سماجی خدمت کے دو شعبوں میں بڑا نام کمایا وہ ہے صحت اور تعلیم۔مجھے دکھ اس بات کا ہوا کہ کل ہی خبر عام تھی کہ پشاور شوکت خانم کا افتتاح دسمبر میں ہونے والا ہے ادھر نمل کالج کے طلبہ میانوالی میں بیٹھ کر بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ڈپلومہ لے کر میدان عمل میں آ چکے ہیں،خیال تھا کہ میڈیا کے لوگ اس پر قلم آزمائیں گے اور سلیم صافی جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے وہ اس کی ستائیش کریں گے،لیکن انہیں اور اس قبیل کے چند صحافی جنہیں حکومتی سر پرستی ملتی ہے وہ کہاں حق کی طرف لوٹیں گے۔
Imran Khan
عمران خان کی سوشل میڈیا پر مقبولیت سے انہیں چڑ سی ہے انہیں علم ہے کہ اب لوگوں کے پاس ذرائع موجود ہیں لوگ اپنی بات کر لیتے ہیں میں نے اپنے ایک کالم میں اس ذریعے کو سراہا تھا ورنہ ہمیں علم تھا کہ پرنٹ میڈیا میں اظہار کرنا بہت مشکل تھا۔خیر وینا ملک کی پذیرائی اپنی جگہ مگر سلیم صافی کو علم ہونا چاہئے کہ عمران خان اس وقت ایک امید ہے۔آپ اپنے قلم سے جتنا مرضی کیچڑ اچھالیں اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑھنے والا،کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت گرچہ دودھ کی نہریں بہانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اس لئے کے جو تیشہ فرہاد کو یہاں چاہئے وہ اسلام آبادی ایوانوں میں تہہ سریر رکھا ہوا ہے۔
آپ آزاد کرا دیں۔آپ جانتے ہیں کے پی کے کی حکومت بشمول اپوزیشن اسلام آباد میں مظاہرے کر چکی ہے کہ اسے اس کی مختلف مدوں میں رائیلٹی جو اس کا حق ہے اسے دی جائے اور تو اور اسے اس کے حصے کی بجلی نہیں دی جا رہی۔میں سلیم صاحب کی اس کی اس بات سے متفق ہوں کہ اسلام آباد اور لاہور کا میڈیا وہیں سٹوڈیوز میں بیٹھ کر تبصرے کرتا ہے اسے تحقیقی جرنلزم کرنا چاہئے اس کے لئے میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ خیبر پختونخوا چلیں اور دیکھیں دودھ کی نہریں گرچہ نہیں تو خون کی ندیاں بھی موجود نہیں ہیں۔اس بارے میں پاکستانی میڈیا کو جناب نعیم الحق کی جانب سے دعوت موجود ہے آپ آگے بڑھ کر ہماری اس دعوت کو قبول کریں۔
اب بات آتی ہے خیبر پختونخوا میں کرپشن کی تو میں آپ کو ان اداروں کی رپورٹیں بھی دکھانے کے لئے تیار ہوں جنہوں نے کرپشن کی ریشوز کو مقابلتا بہت کم قرار دیا ہے،سابق حکومت جو اے این پی کی تھی اس دور کو ذرا ذہن میں لائیں ایک صاحب کے قریبی عزیز کا تو نام ہی ایزی لوڈ ڈال دیا گیا تھا۔ امن و امان کی صورت حال بھی بہت بہتر ہے ۔میں سلیم صافی سے کہنا چاہوں گا کہ آپ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کے پی کے محکمہ صحت تعلیم پٹوار مال غرض کسی بھی شعبے کو دیکھ لیںوہاں صورت حال بدلی ہے یا نہیں۔آپ نے تو کہہ دیا کہ صحافت کے بڑے نام ہماری مدح سرائی کرتے ہیں برادر ہمیں تو ان سے شدید شکوہ ہے کے وہ صوبے کی صحیح تصویر عوام کو نہیں دکھلاتے ۔آج جب بجلی سولر اور دیگر ذرائع سے پیدا کی جا رہی جس کی قیمت بہت زیادہ ہے لوئر دیر کے لئے چار روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرنے والے ہائیڈل پراجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ٣٥٠ کے قریب پارجیکٹس کی فیزیبیلٹی تیار ہے جن میں سے بڑی تعداد میں منصوبے تکمیل کے مراحل میں داخل ہو رہے ہیں۔آپ اگر کے پی کے سگے ہیں تو کیا آپ نے کبھی مرکزی حکومت سے سوال اٹھایا ہے کہ بھاشا ڈیم کے منصوبے کو ٢٠٢٠ سے ٢٠٣٧ تک کیوں لے جایا گیا ہے؟کیا آپ کو علم ہے کہ کے پی کے حکومت نے سرخ فیتے سے بچنے کے لئے آزاد خود مختار ادارہ بھی بنا دیا ہے جسے انرجی بنانے کی مکمل آزادی دی گئی ہے Proventional Energy development Authorityپیڈو نامی اتھارٹی نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔صوبے کے 28600 اسکولوں کی مانیٹرینگ کے لئے ایک الگ سے ادارہ بنا دیا گیا ہے۔سلیم صافی صاحب میں کوئی نندی پور کا چودھری نہیں ہوں میرا تعلق نلہ ہریپور سے ہے مجھے علم ہے کہ ہمارے ہاں کن شعبوں میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔وزیر اعلی کمپلینٹ سیل نے بے شمار لوگوں کی شکایات دور کی ہیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری پولیس نیک نام ہے۔
Khyber Pakhtunkhwa
سچی بات پوچھیں پنجاب پولیس کو دیکھ کر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔اب عید آنے والی ہے عیدی کولیکشن ہر ناکے پر ہو رہی ہے۔میں سمجھتا ہوں آپ اپنے صوبے پر سب سے بڑا ظلم یہ کر رہے ہیں کہ آپ سچ کے ساتھی نہیں ہے۔آپ کو ضیاء اللہ آفریدی کی گرفتاری میں مرکزی نیب کا ہاتھ ڈالنا نظر آ رہا تھا اور آپ کا خیال ہے کہ یہ پرویز خٹک اور ضیاء کی ذاتی لڑائی ہے اور خٹک بھی کرپٹ ہیں۔چلیں یہ بھی دیکھ لیں گے ہوئے تو جیلیں تو سب کے لئے ہیں۔ویسے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کیا عمران کرپٹ ہے؟کیا وہ حصہ لیتا ہے؟آپ کہہ دیں تو میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائوں گا۔لیکن مجھے علم ہے آپ پی ٹی آئی کے سخت مخالف ہوتے ہوئے بھی قائد پر انگلی نہیں اٹھا سکو گے؟اٹھائو خدا کی قسم اور کرو میرا چیلینج قبول۔صد حیف آپ نے جنرل (ر) حامد کے اوپر Mistrust شو کیا ہے۔آپ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلی انہیں کمانڈ کر رہا ہے؟دیکھئے آپ نا انصافی کی ساری حدیں پھلانگ رہے ہیں۔ایسا نا ممکن ہے اور کبھی ممکن بھی ہوا تو عمران نے جب احتساب سیل کا اعلان کیا تھا تو اسی وزیر اعلی نے کہا تھا کہ یہ میرا بھی احتساب کر سکتا ہے۔
کے پی کے میں آپ نے ایک بڑے موضوع کو بھی چھیڑا ہے اور وہ ہے تحریک انصاف کی مجبوری۔پارٹی اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ اکیلے حکومت بنا لیتی اس میں اس نے جماعت اسلامی کا ہاتھ مانگا۔جماعت نے گزشتہ کئی ماہ میں اپنے رفیق کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا۔اب اگر وہ جمہوری وطن پارٹی کی جانب ہاتھ بڑھا رہی ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے ہم نے جماعت اور شیرپائو کا موازنہ کرنا ہے صالحین نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا وہ آپ بھی جانتے ہیں،اب اگر سکندر شیر پائو آ بھی جائے تو اسے بھی علم ہے کہ وزارت کے راستے جیلوں پر بھی ختم ہوتے ہیں اب وہ وقت گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔پارلیمانی سیاست میں نمبرز کی اہمیت سے آپ بھی آگاہ ہیں اور ہم بھی جانتے ہیں۔اللہ کرے گا جب ہم آئیندہ الیکشن میں جائیں گے تو شائد ان مجبوریوں سے آزاد ہو جائیں گے۔قلم کو دنیاوی الائشوں سے پاک رکھئے نام کی طرح اسے بھی صافی کیجئے۔