”ہر کہ آمد، عمارتِ نَو ساخت” کے مصداق ہر آنے والا حکمران صفر سے اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ قائدِاعظم نے تو ”اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا تھا لیکن قائد کی جیب کے کھوٹے سِکّے اِسے ”ذاتی تجربہ گاہ” میں ڈھال کر نِت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ یہ بہرحال طے کہ پچھلے 40 دنوں میں نئے پاکستان کے بانیوں نے جو تجربات کیے، وہ تاریخِ وطن میں کبھی دیکھے نہ سُنے۔ پہلے شور اُٹھا کہ وزیرِاعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ابھی تک تو ایسا کچھ نہیں ہواالبتہ مری اور لاہور کے گورنرہاؤسز کو ہر اتوار کو صبح سے شام تک عوام کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ ہمارے گورنر چودھری سرور کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ وہ کبھی مری میںعوام کے ساتھ سیلفیاں بنواتے نظر آتے ہیں تو کبھی لاہور میں۔ پتہ نہیں وہ دِن کب آئے گا جب گورنر صاحبان دَس، دَس مرلے کے گھروں میں منتقل ہوںگے اور کب یہ گورنر ہاؤسز یونیورسٹیوں میں تبدیل ہوں گے۔ کپتان صاحب نے وزیرِاعظم ہاؤس کی بجائے اپنے ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ کو اپنے لیے منتخب تو کر لیا، وہاں کپتان کی خواہش پر اُن کے بیڈروم میں نیا بیڈ لگا دیا گیا اور تزئین وآرائش بھی کر دی گئی لیکن ابھی تک گھر اپنے مکینوں کے لیے چشم براہ ہے۔ البتہ وزیرِاعظم ہاؤس کی گاڑیوں میں سے کچھ فروخت ضرور ہوئیں لیکن قیمتی گاڑیوں کی طرف کسی نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ یہ برائے فروخت گاڑیاں اب بھی پکار رہی ہیں کہ ”ہم تو مائل بہ کر م ہیں، کوئی سائل ہی نہیں”۔ سائل ہو بھی تو کیسے کہ اتنی مہنگی گاڑی خریدنے کے بعد نیب پیچھے پڑ جائے گی اور ”بابارحمت” کا عصائے عدل بھی گھومنا شروع ہو جائے گا۔ دروغ بَر گردنِ راوی جو گاڑیاں فروخت ہوئیں، اُن سے حاصل شدہ رقم تو وزیرِاعظم صاحب کے ہیلی کاپٹر کی ”آنیاں جانیاں” پر صرف ہو گئی، باقی رہے نام اللہ کا۔
اب شنید ہے کہ وزیرِاعظم ہاؤس کی بھینسیں بمعہ اپنی ”آل اولاد” کے 23 لاکھ 2 ہزارمیں فروخت کر دی گئیں۔ اِن میں سے تین بھینسیں تھیںجن کی اولاد چار کَٹیاں اور ایک کَٹا۔ تین بھینسوں میں سے ایک کی بولی ایک لاکھ سے شروع ہو کر 3 لاکھ 85 ہزار، دوسری 3 لاکھ 30 ہزار اور تیسری 3 لاکھ میں فروخت ہوئی۔ بولی دینے والے حیران تھے کہ اتنی” اونچی” بولی کیسے چلی گئی۔ تب یہ عقدہ وا ہوا کہ یہ تینوں بھینسیں نوازلیگ کے کارکنوں نے خریدیں جو گھر سے یہ طے کرکے آئے تھے کہ بہرصورت اِن بھینسوں کو خرید کر میاں نوازشریف کو ”گفٹ” کرنا ہے۔ یہ میاں صاحب سے محبت کا والہانہ اظہار تو ہے ہی لیکن حکمرانوں کو بھی یہ فائدہ ہو گیاکہ ہیلی کاپٹر کے دو، تین چکر اور لگ جائیں گے اور خزانے پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔یہی تو ”سادگی” ہے اور اسی کو کہتے ہیں ”رند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی”۔ اب اگر کوئی جَل بھُن کے سیخ کباب ہونے والا کہتا ہے کہ یہ ”نیا پاکستان” نہیں بن رہا تو اُس کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بھئی ! یہی تو نیا پاکستان ہے جس میں نِت نئے تجربات ہو رہے ہیں اور اِسی لیے تو سارے سونامیے کورس میں گاتے رہتے ہیں کہ ”ہم سا ہو تو سامنے آئے”۔
ارسطوانہ دماغ رکھنے والے اکابرینِ تحریکِ انصاف نے سوچا کہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے لیے تو صرف ایک کمرہ ہی کافی ہے، اِس لیے چلو ریڈیو پاکستان کی عمارت کو فروخت یا پھرکم از کم ”پَٹے” پر دے دیتے ہیںاور ریڈیو پاکستان اسلام آباد کو اُٹھا کر کسی دو، چار مرلے کی عمارت میں منتقل کر دیتے ہیں۔ شاید بزرجمہروں نے سوچا ہو کہ الیکٹرانک میڈیا کے اِس دَور میں بھلا ریڈیو کون سنتا ہے۔ اِس لیے ”نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری”۔ اُنہوں نے یہ سوچا تک نہیں کہ ریڈیو پاکستان ارضِ وطن کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہی ریڈیو پاکستان ہے جس پر 27 رمضان المبارک، 14 اگست 1947ء کو جب یہ آواز گونجی ”یہ ریڈیو پاکستان ہے” تو پورا ملک تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ یہ وہی ریڈیو پاکستان ہے جس نے عالمی نقشے پر اُبھرنے والے اِس اسلامی جمہوریہ کو اقوامِ عالم میں متعارف کروایا۔ یہ صرف ریڈیو نہیں، پاکستان کی تاریخ ہے جس نے اپنے اندر بہت کچھ محفوظ کر رکھا ہے۔ بھلا ایسی نشانیوں کو بھی کوئی پَٹے پر دیتا ہے؟ لیکن پتہ نہیں موجودہ وزیرِاطلاعات فواد چودھری کے دماغ میں کِیا کھچڑی پکی کہ اِس عمارت کا سودا کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ وہ تو خیر گزری کہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے ملازمین مرنے مارنے پر تُل گئے جس پر یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
فواد چودھری بھی عجیب ہے جس نے یہ سمجھ لیا کہ وہ پارلیمنٹ نہیں، کسی جلسۂ عام میں کنٹینر پر کھڑاہو کر تقریر کر رہا ہے ۔ شاید اُس نے یہ جانا کہ سامنے سب ”لَلو، پَنجو” بیٹھے ہیں۔ اُس کے اِس خطاب پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر (جو تحریکِ انصاف ہی کے منتخب کردہ ہیں)نے نہ صرف برہمی کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ اسمبلی اور جلسے کی تقریر میں فرق ہوتا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فوادچودھری نے کہا” گزشتہ برسوں میں خزانہ لُوٹا گیا۔ اپوزیشن نے قومی خزانے کو ایسے برباد کیا جیسے ڈاکے کی رقم مجرے پر لُٹائی جاتی ہے۔ سٹیل مِل، ریڈو پاکستان اور پی آئی اے سمیت ادارے تباہ کیے گئے۔ نیویارک میں ٹیکسی چلانے والے کو ڈی جی ریڈیو بنا دیا۔ خورشید شاہ نے آٹھ سو افراد کو ریڈیو میں بھرتی کیا۔ مشاہد اللہ خاں نے اپنے بھائی اور کزن کو پی آئی اے میں اہم عہدوں پر فائز کرایا۔ وزیرِاعظم میری بات مانیں تو اِن کو اُلٹا لٹکا دینا چاہیے”۔ فواد چودھری نے انتہائی غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی کو ”چمچے، کڑچھے” تک کہہ دیا۔ جواباََ سابق قائدِحزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا ” وزیر ِاطلاعات نے گھٹیا زبان استعمال کی۔ مجرہ جہاں ہوتا ہے، سب کو پتہ ہے، سوشل میڈیا پر بھی آتا ہے، کہیں تو ہم سکرین لگا کر دکھا دیں۔ موقع ملا تو آٹھ سو کیا، ایک لاکھ لوگوں کو نوکریاں دوںگا، پھانسی پر لٹکانا ہے تو لٹکا دو”۔ قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا کہ وزیرِاطلاعات ایوان سے معذرت کریں ورنہ ہمیں واک آؤٹ کرنا ہوگا۔ اِس کے بعد اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی جس پر تحریکِ انصاف کے کچھ ارکان اپوزیشن کو منا کر واپس لائے اور فوادچودھری نے معافی مانگی۔ نئے پاکستان کے بانی وزیرِاعظم عمران خاں کے فوادچودھری جیسے شخص کے انتخاب پر داد دینے کو جی چاہتا ہے لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر ، باز با باز
جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں غیرپارلیمانی الفاظ کے موجد بھی تو کپتان صاحب ہی ہیں۔ اب اگر اُن کے حواری ایسے گھٹیا الفاظ استعمال نہ کریں تو کیا کریں۔
فواد چودھری کے گھٹیا اور غیرپارلیمانی الفاظ کی گونج ایوانِ بالا (سینٹ) میں بھی سنائی دی۔ نوازلیگ کے سینیٹر مشاہداللہ خاں کچھ زیادہ ہی ”تَپے” بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ یا تو فوادچودھری ثابت کرے کہ میں نے اپنے بھائی اور کزن کو پی آئی اے میں نوکری دلوائی یا پھر سینٹ میں آکر معافی مانگے ورنہ سینٹ کی کارروائی چلنے نہیں دی جائے گی۔ اُنہوں نے عمران خاں سے فواد چودھری کے استعفے کا مطالبہ بھی کیااور ساتھ یہ پیشین گوئی بھی کر دی کہ ایک دِن عمران خاں خود اِسے نکال باہر کرے گا۔ ایک موقعے پر جب مشاہداللہ نے یہ قطعہ پڑھا کہ
جب کمینے عروج پاتے ہیں اپنی اوقات بھول جاتے ہیں کتنے کم ظرف ہیں یہ غبارے چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں
تو چیئرمین سینٹ نے کہا کہ ”کمینہ” غیرپارلیمانی لفظ ہے، اِس کو کارروائی سے حذف کیا جاتا ہے۔ اِس پر مشاہد اللہ خاں نے کہا کہ لفظ ”کمینہ” غیرپارلیمانی نہیں ، اِسے تو حبیب جالب جیسے شاعر نے بھی استعمال کیا ہے۔ پھر اُنہوں نے حبیب جالب کا یہ شعر سنایا۔
حکمران بن گئے کمینے لوگ خاک میں مِل گئے نگینے لوگ
لفظ ”کمینہ” تو واقعی شاعری میں مستعمل ہے، سوال مگر یہ کہ مشاہداللہ خاں کس کے دوبدو ہو رہے ہیں؟۔ کیا اُنہیں صوفی شاعر خواجہ میر درد کی یہ نصیحت یاد نہیں نہ ہاتھ اُٹھائے فلک گو ہمارے کینے سے کِسے دماغ کہ ہو دو بدو کمینے سے