تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید عمران خان پاکستان کا ایک ایسا سیاسی نام ہے جس کو سن کر ہر سوجھ والا اور پڑھا لکھا شخص سر پیٹ لیتا ہے۔ کیا پاکستانیوں کی قسمت اتنی بری ہو گئی ہے کہ ایسے رہنماﺅں سے واسطہ پڑ رہا ہے کہ جن کی زبان اچھی ہے نہ دل و دماغ اپنے ٹھکانے پر ہے!!! اور خواب اعلیٰ ایونوں میں راج گدی پر بیٹھنے کا ہے۔ گذشتہ تین مہینوں سے پر روز خواب میں وزیر اعظم نواز شریف استعفےٰ دیکھتے ہیں اور رات بارا بچے تک اسی سحر میں گم رہتے ہیں۔لندن پلان بنوانے والوں نے انہیں خوب ہی سُہانے سپنے دکھائے تھے۔چونکہ یہ بوٹ بردار جمہوریت کے حامی ہیں لہٰذا ہر روز کپتان کی انگلی اُٹھنے کا انتظار رہا مگر کوئی بودی باشاہ ان کا خواب باوجود وعدوں کے پورا کرنے نہیں آسکا اور انُ کی وکٹیں ایک کے بعد ایک گرتی چلی جا رہی ہیں۔
اب وزیر اعظم کے استعفے سے رجوع کر لینے کے بعد ۔انوکھے لاڈلے کا نیا مطالبہ سا منے آچکا ہے کہ عدالتی کمیشن دھاندھلی کے الزامات کی تحقیقات کےلئے بنایا جائے جس میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کو شامل کیا جائے۔ یہ کمیشن 4، سے6 ،ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرے۔پہلے موصوف کو تصدق حسین گیلانی پر مکمل اعتماد تھا مگر اب انہیں عدلیہ غیر جانبدار دکھائی نہیں دے رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی منشاءیہ ہے کہ اب ایجنسیز کے لوگ سیاست میں داخل ہو کر ان کے ارادوں کے مطابق انہیں اقتدار دلا کر ان کی تشفی کر دیں جو فیالوقت ت ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے مگر انوکھا لاڈلہ کوئی بھی مطالبہ کر سکتا ہے۔دوسرے جانب اس غیر آئینی مطالبے حکومت نے اور دیگر سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کر دیاتھا۔س نا معقول مطالبے کی سیاست کے ایوانوں میں سے ہر جانب سے مخالفت سامنے آرہی ہے۔
عمران خان پاکستان کی سیاست میں ایسا نام ہے جس نے اپنے نا معقول بیانات کے تسلسل سے کئی اپنے اچھے حمائیتوں کو بار بار سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ان کے عتاب سے چوہدری برادران اور شیخ رشید جو غالباََ موجودہ سیاسی دورانئے میں ان کے سیاست کے میدان میں استاد کا درجہ رکھتے ہیں کے سوائے کوئی بھی نہیں بچ سکا ہے بلکہ ان کے اسٹیج سے وہ جس قدر مسلم لیگ ن اور اس کے سربراہ کے خلاف بد زبانی بد کلامی کر سکتے ہیں کرتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا اس لئے نہیں ہے کہ زبان درازی میں عمران خان ان سے بھی لمبی زبان رکھتے ہیں۔بلکہ عمران خان نے توجب موقعہ ملا اپنی حلیف جماعت، جماعتِ اسلامی کو بھی رگید کے رکھ دیا کیونکہ وہ نظریاتی طور پر پی ٹی آئی کے جماعتِ اسلامی کے مقابلے میں زیدہ قریب ہیں۔اپنے لوگوں کے سمجھانے پر جماعت اسلامی کے امیر سے معافی تلافی کر لی ورنہ خیبر پختونخواہ کی حکومت لزہ بااندام ہونے کے قریب تھی۔
Pakistan
لوگوں کا خیال ہے کہ جس کے پاس خاندانی عزت و وقار ہوتا ہے وہ کبھی بھی کسی کی پگڑی نہیں اچھالتا ہے۔ہماری دیہاتی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ”جس کی اُتر گئی لوئی اُس کا کیا کرے گا کوئی“ اتنی بری زبان تو کسی انتہائی اُجڈ شخص کی بھی نہیں ہوسکتی جتنی بری اور ناشائستہ زبان شیدا پنڈی اور کر کٹر عمران خان کی ہے۔ان دونوں کو کسی کی بھی عزت و وقار کا پاس ہے نہ اپنی بری زبان کا احساس ہے۔ کیا یہ ہی پاکستان کے 20 ،کروڑ عوام کے بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں؟؟؟یہ دونوں تو زبان و بیان کے حوالے سے اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کو کسی مزار کی جُوتیاں ہی سیدھی کرنے پر معمور کیا جا سکے۔ چہ جائے کہ پاکستان کا حکمران بنایا جائے ۔وہ شخص جو عقل سے عاری اور کانوں کا کچا ہو کیا کسی معمولی سے عہدے کے بھی لائق ہے؟ افسوس ان ڈانس پارٹیوں اور سنگرس پارٹیوں پر ہے جو ایسے بد زبان اور شُتر بے مہار کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔میرے محلے کے بچے تو عمران خان کی تصویراخبار میں دیکھتے ہی کہہ اٹھتے ہی”اوئے اوئے“کیونکہ ان کا ہر جملہ اپنے مخالفوں کے لئے اوئے سے ہی شروع ہوتا ہے اور اوئے پر ہی ختم ہوتا ہے۔
عمران خان اس ملک کی بد قسمت تاریخ کا ایسا رہنما ہے جس کی زبان میں کہیں بھی شیرینی تو دکھائی ہی نہیں دیتی ہے۔” ہر بات پہ کہتے ہو کہ تو کیا ہے تم ہی بتاﺅ کہ یہ اندزِ گفتگو کیا ہے اب ان کی ٹون میں ایک عظیم الشان تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب انہوں نے نے سیاست دانوں کا پیچھا چھوڑ کر صحافیوں اور میڈیا ہاﺅسز کی خبر لینے کی ٹھانی ہے۔ماضی کی طرح ایک اورجھوٹ کی پوٹ کھولی ہے۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے صحافیوں کالم نگاروں،تجزیہ کاروں اور اینکر پرسنز کا ضمیر خریدنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے 270، کروڑ روپے ان لوگوں کو دیئے ہیں۔مگر یہ بات بھی گذشتہ سینکڑوں جھوٹوں میں شامل کرلینا چاہئے جو وہ گذشتہ تین ماہ کے دورن گھڑ گھڑ کے پیش کرتےرہے ہیں۔آئندہ دنوں میں یہ جماعت اسلامی کی طرح صحافیوں کے آگے بھی ہاتھ جوڑتے دکھائی دیں گے۔کیونکہ متلون مزاجی ان کا شیوہ رہی ہے ان کی چولی میں برائے فروخت میڈیا پرسن بہت ہیںجو ان کی جنگ میڈیا پر لڑتے ہوئے بری طرح سے نا صرف بد نا نام ہوئے ۔بلکہ آج عدالتوں کے بھی دھکے اپنی مصنوعی کار گذار پر کھا رہے ہیں۔
وہ جو نیا پاکستان بنانے چلے تھے خود بھی پرانے ترین ہوتے جا رہے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ”عمریہ ڈھلتی جائے ،وزارتِ عظمیٰ ہاتھ نا آئے“اس ماسک چڑھے ستر سالہ جوان سے وزیر اعظم پاکستان نے سوال کیا ہے کہ عوام نے نیا خیبر پختون خوا بنانے کے لئے ووٹ دیا تھا وہ نہیں بنا تو نیا پاکستان کیسے بنے گا؟؟؟دوسری جانب آئی ڈی پیز خیبر پختون خوا کی حکومت کی جان کو رو رہے ہیں۔ااُن کے ساتھ ان کی حکومت کا روئیہ نہایت ظالمانہ ہے۔جسٹس طارق محمود کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے۔وہ اپنی زبان و بیان سے نئے پاکستان کا کلچر متعارف کر رہے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے عمران خان کی بد زبانی پر انہیں بونگے خان کے خطاب سے نوازا ہے۔ انہیں زرداری اور نواز شریف کے پیسوں کی تو بڑی فکر ہے ۔وہ اس بات کی بھی تو وضاحت کریں کہ جو ابتک لگ بھگ 42 ،کروڑ روپے کے اخراجات انہوں نے گذشتہ تین ماہ کے دھرنوں اور جلسوں پر خرچ کئے ہیں یہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟کیا یہ اس بات کی زحمت گوارا کریں گے کہ وہ کونسے ان کے ذرائع ہیں جہاں سے اتنی بھاری رقم انہوں نے خرچ کی ہے۔ظاہر ہے یہ لندن پلان کا ہی کمال ہوگا جو اس قدر خطیر رقم خرچ کر کے بھی مطمعن دکھائی دیتے ہیں۔جہاں ناکامیوں کے سوئے ان کے ہاتھ کچھ بھی تو نہیں لگا ہے۔ان کے اسپانسر اب کہہ رہے ہیں کہ ”چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کے گایہی وجہ ہے کہ حکومت کو انہوں نے ایک اور ڈیڈ لائین 30،نومبر کی دے کر اپنے لوگوں کا اطمنان دلانے کی کوشش کی ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com