نمک کی کان میں تلاش ہے مٹھاس کی

Pakistan

Pakistan

آج کل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نمائندگی کا معاملہ بے ضرر موضوعِ بحث ہے۔جبکہ نمائندہ کا یہ معاملہ تو بہت قدیم دور سے ہی چلاآرہاہے۔اور دہائیوں سے یہ قوم نمائندگی کے موضوع پر سینہ کوبی کرتی چلی آ رہی ہے۔مگر معاملے کو اس محاورے کے تناظر میں دیکھنا فطری امر لگتا ہے کہ ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” بہرحال آج بھی نمائندگی کا یہ مسئلہ سَر اٹھائے کھڑا ہے جبکہ قوم نے نمائندگی کا فیصلہ کردیاہے۔یہ الگ بات ہے کہ کسی ایک فریق کو نمائندگی کا حق نہیں دیا گیا۔لیکن بڑی جماعت کی حیثیت سے جنہیں چُننا تھا قوم نے چُن لیاہے۔

اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نمائندگی کا مسئلہ پھر سے کچھ سالوں کے لئے ٹل گیاہے۔اب قوم کا یہ فیصلہ کیسا ہے ، اور کہاں تک درست ہے یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ عیاں ہوتاجائے گا۔ہمارے یہاں ابھی بھی دھاندلیوں کے خلاف دھرنے دیئے جارہے ہیں( اور دھرنے کی آڑ میں عوام کو تکلیف دہ مراحل سے دو چار کیا جا رہا ہے) جبکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اب کچھ نہیں ہونے والا۔اور ویسے بھی مبصرین کے مطابق ہر ترقی پذیرملکوں میں دس فیصد تو دھاندلی کا غلبہ رہتا ہی ہے۔

اگر ان کے مطابق نوے فیصد نتائج حقائق پر مبنی ہے تو اس بٹے ہوئے قوم کو سمجھ لینا چاہیئے کہ جو ہوا ٹھیک ہی ہوا۔ویسے بھی برطانوی مبصرین کا تجزیہ یہی آیاہے کہ پاکستان میں شفاف الیکشن ہوچکے ہیں۔جہاں تک مختلف جماعتوں کا مختلف شہروں میں مینڈیٹ کا تعلق ہے توآج کراچی کے حلقہ این اے 250کے 43پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ کرا دی گئی ہے اور اب تو گنتی کا عمل بھی جاری ہوگا۔ مگر دن بھر میڈیا کے ذریعے یہی پیغام آتا رہا کہ ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ بہت زیادہ کم ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ مینڈیٹ رکھنے والوں نے جب بائیکاٹ کر دیاتو ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ تیز ترکیسے ہو سکتاہے۔ آج کے ٹرن آئوٹ سے یقینا یہ بات واضح ہوگئی کہ الیکشن چاہے جیسے بھی ہوں جب ہو چکے ہو ں تو سب کو ملکی مفاد میں نتیجہ تسلیم کر لینا چاہیئے۔اسی طرح جمہوریت کا پہیہ چل سکتا ہے نہ کہ آپس میں دست و گریباں ہوکر۔ہمارا ملک آج جس سمت میں محو سفر ہے وہاں پر بھائی چارگی۔

پیار و محبت، اور یگانگت کی سخت ضرورت ہے ۔آپس میں ناراضگی، باہم دست و گریباں ہونا دشمنوں کو موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوگا اس لئے آپسی تنائو اور کھچائو کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف ملک کا مفاد عزیز رکھا جائے۔تاکہ خوشحالی اس ملک کا مقدر بن سکے۔یہاں کے عوام ترقی یافتہ کہلا سکیں،جمہوریت کا تسلسل بحال رہے اور لوگوں کو روزگار، مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ جیسی لعنتوں سے چھٹکارا مل سکے۔آج ایک چینل پر تجزیہ کاروں نے یہی بات دہرائی ہے کہ ابھی نئی اسمبلی نے اپنا حلف نہیں اٹھایا اور سب لوگ آپس میں لڑ نے مرنے کو تیار ہیں۔

Political Party

Political Party

اگر یہی کارگزاری رہی تو اسمبلی میں بھی مختلف النوع قسم کی پارٹیاں وجود میں آئیں گی اوریہ افراد اسی طرح آپس میں الجھتے ، گرجتے ، برستے رہیں گے۔خدا نہ کرے کہ ایسا ہو ! اگر ایسا ہوا تو پھر سے عوامی مفادِ عامہ کے تمام کام سرد خانے کی نظر ہونے کی اُمید بڑھ جائے گی۔اگر ایسا ہوا تو گزرے ہوئے چند سال اور موجودہ حالات میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گااور عوام کے حصے میں وہی محرومی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

انہیں کچھ مل بھی نہ پائے گا۔گذشتہ کئی برسوں سے ہمارے یہاں اقتدار میں ساجھے داری کی سیاست ہوتی رہی ہے جبکہ اس بار بھی اکثر پارٹیاں ایک دوسرے میں ضم ہو رہی ہیں اور مستقبل قریب کی سیاست میں ایسا ہی لگتاہے کہ پھر سے ہم خیال لوگوں کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔جبکہ عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لئے مینڈیٹ کا سہرا بڑی پارٹی کے سر سجایا ہے اور ووٹ دیکر یہ کہہ دیا ہے کہ اب ان کی رگوں میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہ گیاہے ۔وہ اب اپنے چہرے کی شادابی اور اپنے رخساروں کی سرخی کے لئے مسائل کو حل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

اب دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ اسی طرح لڑتے اور جھگڑتے رہیں گے تو ملک کو سیدھے راستے پر کیسے لے کر آئیں گے ۔ آج اس ملک میں کرپشن کا جزو لا ینفک ہو گئی ہے ۔ملک میں رشوت خوری کے واقعات ببانگِ دہل مل جاتے ہیںاور یہ معاملات ملک کی سیاست کے بڑے بڑے ناموں سے جُڑے ہوئے ہیں اور ان میں بہت کم معاملات ایسے ہیں جن میں قصور واروں کو سزا ہوئی ہو۔اگر سزا ہوئی ہوتی آج کرپشن کا عروج ملک بھر میںیوں نہ ہوتا۔رشوت ستانی ایسا زہر ہے جس کا اثر معاشرے پر بھی ہو چکاہے اور ہر ہر عہدہ رکھنے والا شخص رشوت زدہ ہو گیاہے۔

جو نہ رشوت دینے کو بُرا سمجھتا ہے اور نہ ہی رشوت لینے کو ایسا سماج جو اپنا کام بنانے کے لئے غیر ضروری اور غیر قانونی خرچ کو برا نہیں سمجھتا وہ سرکاری خزانے کے غیر ضروری خرچ کو کیوں کر بُرا سمجھے گا؟ یہ رشوت زدہ معاشرہ اگر رشوت خوری اور بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر نکلتابھی ہے تو اس کی یہ گرمی کچھ ہی روز کی ہوتی ہے ۔جب انتخابات قریب آتے ہیں تو سیاسی پارٹیاں رشوت خوروں اور بد عنوانوں کے خلاف کھوکھلے اقدامات کرکے عوام کے ذہن کو اپنی کرپشن مخالف شبیہ کی رشوت دے کر اس کی ساری گرمی اتار دیتی ہے۔نئی حکومت کو چاہیئے کہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے معاشرتی سطح پر کام کرے تاکہ معاشرہ سدھرے تبھی جا کر سیاست سدھرے گی وگرنہ دوسری کوئی صورت تو نظر نہیں آتی۔
آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کوئی اور زمانے کا خواب

دنیائے عالم پر سرداری اور سرفرازی کے لئے تین چیزیں لازم و ملزوم ہوتی ہیں ایک حکومت ، دوسرے دولت اور تیسرے علم و حکمت۔ اگرچہ حکمت علم سے ہی پیدا ہوتی ہے۔فی زمانہ ہم اپنی حالت پر نظر ڈالیں تو اپنے پاس حکومت ، دولت اور علم کچھ بھی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے عوام بھی رسوا ہو رہی ہے اور تنگدستی ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔کہنے کو ٥٤ یا ٥٥ مسلم ممالک ہیں مگر وہ ایک بھی آزاد فضا میں سانس لیتی ہوئی نہیں دکھائی دیتی۔غیروں کے اشاروں پر کام کاج چل رہا ہوتا ہے۔اسی لئے یہ مثال بھی ان پر ثابت ہوتاہے کہ ” غیروں پر کرم اپنوں پہ ستم” آج ہم انصاف سے دور، اتحاد سے بیگانہ، آپسی اختلافات اور عداوت میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

یہاں جہالت، غربت و افلاس پسماندگی اور درد کی بھوک شدید نظر آتی ہے۔نئی حکومت تو قائم ہونے جا رہی ہے مگر لگتایہی ہے کہ حکومت میں آجانا نہایت آسان مگر مسائل سے گھرے پاکستان کے لوگوں کوان مسائل سے نکالنا کانٹوں کی سیج ثابت ہوگی۔اگرچہ وعدے تو بہت ہوئے ہیں ۔نئی حکومت کو سب سے پہلے بجٹ کا مہینہ درپیش ہے اور وہ بھی حکومت سنبھالتے ہی بجٹ پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا مگر کام تو بہرحال سب ہی کرنے ہیں۔سب سے پہلے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ سترہ ہزار کرنے کا وعدہ ابھی پُرانا نہیں ہوا ہے۔

مزدو ر طبقہ کی نظریں اِسی بجٹ پر جمی ہوئی ہیں۔دیکھئے نئی حکومت کب اور کتنے عرصے میں اپنے وعدے پورے کرتی ہے۔ویسے اگر حکومت یہ ٹھان لے کہ مسائل کو حل کرنا ہے تو وہ ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے اور اگر نیت صاف ہو تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہو جاتی ہے۔

کسی قسم کی مخالفت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔بس اس مسرعے پر اختتام کلام کرتا ہوں کہ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام ” ویسے بھی کالم نویس کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا بلکہ مسائل کو ابھار کر اس کے حل کی طرف نظرِ خاص ڈالوا کر اس کے حل کی کوششیں کرنا ہی اس کا مقصد ہوتاہے۔ جو مستقبل میں ملک و قوم اور جمہوریت کے لئے کارگر بن سکے۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی