تحریر: علامہ سید سعید الحسن شاہ گیلانی پیر آف پوٹھوہار نواسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر کا لفظ بھی شعور سے مشتق ہوا ہے لہذا جو جتنا باشعور ہوگا
اس کے اشعار میں اتنی ہی گہرائی اور وسعت ہوگی شاعر مشرق علامہ اقبال بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزین ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبال جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کر ے شاعر حسینیت قیصربار ہوئی کے بقول:
Karbala o Iqbal
وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا
مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہمنوا
محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا
تفریق رنگ و نسل پہ عالب ہے کربلا
تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے
ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے
شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب
واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب
تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب
اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب
دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا
Karbala o Iqbal
علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کرتا ہے۔
وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔
آپ بال جبرئیل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل
Karbala o Iqbal
بعض اقبال شناسوں کے مطابق علامہ اقبال نے خدا کی رضا و اجازت کے بغیر ایک ہی لفظ زبان پر نہ لانے والے پیغمبر گرامی حضرت محمدؐکی اس معروف حدیث کی تشریح کی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا “حسین منی و انا من الحسین” “یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں”۔
اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد بیت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ رسول خدا کی ذات سے امام حسینؑ کا وجود تو ممکن ہے کیونکہ وہ آپ کے نواسے ہیں لیکن رسول خدا کا امام حسین سے ہونا کیا۔۔۔ رکھتا ہے۔
اس حدیث کی تفسیر میں آیا ہے کہ چونکہ رسول آخر زمان حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں اور اگر حضرت اسماعیلؑ، حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں قربان ہوجاتے تو رسول اکرم کا وجود مبارک بھی نہ ہوتا۔جب اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل کی قربانی کو زبح عظیم کے بدلے ایک دنبے کی قربانی میں تبدیل کردیا
Karbala o Iqbal
تو جس زبح عظیم کا ذکر آیا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے لہذا امام حسینؑ نے حضرت اسماعیل کی جگہ پر اپنی قربانی پیش کی اور یوں حضرت اسماعیل قربانی ہونے سے محفوظ رہے اور آپ کی نسل رسول خدا تک پہنچی۔ علامہ اقبال ایک اور مقام پر اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آں امام عاشقاں پوربتولؑ سرو آزادی زبستان رسولؐ
اللہ اللہ بای بسماللہ پدر مفی زبح عظیم آمد پسر
اقبال ایک اور مقام پر امام حسینؑ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :
“سر ابراہیم و اسماعیل بود یعنی آن اجمال را تفضیل بود”
علامہ اقبال معرکہ کربلا کو حق و باطل کا ایک بے مثل واقعہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
“حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتےرہتے ہیں انداز کوفی و شامی”
Karbala o Iqbal
گویا اقبال کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصبالعین بنارہےگا آپ نے فرمایا تھا :”مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا”
علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو ایک اور شعر میں یوں اداکیا ہے
موسی و فرعون و شبیر و یزید این دو قوت از حیات آمد پدید
علامہ اقبال واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں
زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است
علامہ اقبال امام حسینؑ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بناکر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
Karbala o Iqbal
بر زمین کربلا بارید و رفت لاله در ویرانهها بارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد موج خون او چنین ایجاد کرد
رمز قران از حسین آموختم ز آتش او شعلهها اندوختم
علامہ اقبال واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت کو اسلامی اور انسانی بیداری کا لازوال کردار گردانتے ہیں”رموز بیخودی” میں کہتے ہیں:
عزم او چون کوہساران استوار پایدار و تند سیرو کامکار
آگے چل کر مزید کہتے ہیں:
خون او تفسیر این اسرار کرد ملت خوابیده را بیدار کرد
Karbala o Iqbal
نقش الا الله بر صحرا نوشت سطرعنوان نجات ما نوشت
علامہ اقبال سیدالشہداء کی ذات میں گم ہوکر کہہ اٹھتے ہیں:
بہرِ حق در خاک و خون گردیده است بس بناء لا اله گردیده است
حکیمالامت علامہ اقبال جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہاں کربلا کے لق و دق صحرا میں نواسہ رسول کی مظلومیت آپ کو بے تاب کردیتی ہے۔ آپ غم و اندوہ سے کہتے ہیں:
دشمنان چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او به یزدان هم عدد
غم حسینؑ میں اپنے گریے اور آہ و زاری کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں
رونے والا ہوں شہید کربلا کی یاد میں کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
Allama Syed Hasan Shah Gilani
تحریر: علامہ سید سعید الحسن شاہ گیلانی پیر آف پوٹھوہار