کچھ کہانہیں جاسکتا ہے..؟ ہاں اگر انتخابات ہوئے تو…؟ آخراِن اُمیدواروں کو بھی موقع ملناچاہئے، جنہوں نے اپنے بہتر مستقبل کے حسین خواب دیکھ کر اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائیں ہیں ،کیونکہ یہ اِن کا بھی تو پاکستان ہے، اِس میں یہ بھی وہی کچھ کریں گے جیسا 2008کے انتخابات میںاِن جیسوں نے اِسے ایوانوں تک آنے کے لئے سیڑھی کا کام لیااور ایسے ہی انتخابی راستے سے گزر کر وہ لوگ ایوانوں میں آئے تھے ، اور گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں وہ بغیر کسی ندامت اور افسوس کے مُلک اور قوم کو مسائل کی دلدل میں دھکیل کراتناکچھ بُراکرکے گزرگئے۔
آج جس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتاہے۔ بہرکیف…!میں بات کررہاہوں 11مئی 2013کے ہونے والے اُن انتخابات کی جن کے انعقاد سے متعلق بڑی اُمیدیں ہیں کہ اِن کے ہونے سے ملک میں بڑی تبدیلیاں آئیں گیں، اور مُلک کو مسائل سے نجات ملے گی اور عوام کے درد کا مداواہوگا ،آج اِس اُمید کے ساتھ سب کی ربِ کائنات سے دعاہے کہ اللہ کرے کہ اُمیدیں برآئیں، جن کے لئے یہ انتخابات ہورہے ہیں، اور میرے ملک میں حقیقی معنوں میں خوشحالی آئے، اور عوام کے چہروں پر خوشیاں لوٹ آئیں،مگرپھربھی لگتانہیں ہے ، کہ انتخابات ہوں گے۔
ایک انجانہ ساخوف ہے، جو متواترسراُٹھاکر اپنے احساس کا یقین دلاکرپھریکدم سے خاموشی سے کہیں دپک کر بیٹھ جاتاہے،اور پھر یکدم سے اُٹھتاہے اور ڈنگ مار کر چھپ جاتاہے۔اَب جبکہ انتخابی اُمیدواروں کی طرف سے جمع کرائے گئے (کاغذات نامزگی )برائے قومی اسمبلی کے اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی گئی ہے،اِس حوالے سے اِس فہرست میں کئی ایسے حیران کُن اور دلچسپ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ جن سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
ایسے لوگ کیا واقعی مُلک اور قوم کی تقدیر کا بہترفیصلہ کرپائیں گے…؟یاایوانوں میں پہنچنے کے بعدیہ بھی اپنے پیش روکی طرح وہی کچھ کریں گے جیساوہ کرکے گزرگئے ہیں خبریہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوجانے کے بعداَب قومی اسمبلی کے سجنے والے انتخابی میدان میں چارہزارایک سو آٹھ اُمیدوار رہ گئے ہیں، مرتب کی گئی فہرست اور رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابی دنگل میںشریک ایک ہزار226 اُمیدواروں کواپناپیشہ ظاہرکرنے میں شرمندگی محسوس ہوئی۔
جس پر اُنہوں نے کاغذاتِ نامزدگی میں اِسے لکھنامناسب ہی نہ سمجھاجبکہ رپورٹ میں ہے کہ786اُمیدوارزراعت سے وابستہ ہیں،777اُمیدواروں کا ذاتی کاروبارہے اور307اُمیدواروکیل ہیں، اِسی طرح276اُمیدوارزمیندارہیںاور131ملازمت پیشہ ہیں، 71ڈاکٹر ہیں تو وہیں48کے قریب پیش امام یا عالم بھی ہیں، اور تو اور پراپرٹی ڈیلربھی اِس انتخابی معرکہ آرائی میں پیچھے نہیں رہے ہیں، جن کی تعداد30کے قریب ہے،ایوانوں میں آنے کے بعد اِن کی تعداد میں کئی گنااضافہ بھی ممکن ہے۔
Pakistan
کیوں کہ ممکن ہے کہ مندرجہ بالا اور ذیل کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے بیشتراُمیدوار مُلک اور قوم کے استحکام کو فروخت کرنے میں شامل ہوجائیں اور اِس طرح پراپرٹی ڈیلرز کی تعداد بڑھ جائے، خیراللہ مالک ہے ہاں تو میں بات کررہاہوں قومی اسمبلی کی حتمی فہرست کی جس کے مطابق گیارہ مئی کے متوقعہ انتخابا ت میں 29اُمیدوارریٹائرڈملازم اور 28مزدورسمیت 22صحافی بھی انتخابی عمل میں شریک ہیں۔
بات یہیںختم نہیں ہوگئی ہے فہرست میں 14اُمیدوارطالب علم بھی ہیں جبکہ 23بیروزگار اور 78ایسے بھی اُمیدوار شامل ہیں جن کا سوائے سیاست کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے اَب ایسے میں ووٹرزاور پاکستانی قو م کو دیکھنایہ ہے کہ انتخابی میدان میں کامیابی کے بعدیہ لوگ اپنی صلاحیتوں کا کس طرح استعمال کرتے ہیں اور مُلک و قوم کو کس ڈگرکر لے جاتے ہیں۔
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ایشائی ممالک میں شاید پاکستان ایک ایساملک ہے، جہاں اِس کے قیام کے 66/65سالوں کے دوران جب بھی الیکشن ہوئے اور اِن انتخابات کے نتیجے میں جتنی بھی حکومتیں تشکیل پائیں ماسوائے چندایک کے ایسی بہت کم ہی حکومتیں گزری ہیں جواپنی مدت پوری پائیں ہیں ،ایک مثال گزشتہ ماہ کی تیرہ چودہ کی درمیانی رات میں ختم ہونے والی پی پی پی کی حکومت کی موجودہ ہے جو اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوئی۔
اگرچہ آج اِس کی پانچ سالہ کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تویہ حقیقت واضح طور پر سامنے آجائے گی کہ اِس مفاہمت پرست اور چاپلوس حکومت نے اپنی مدت کس طرح پوری کی اور اِس دوران اِس حکومت کے کارندوں نے اپنے مفاہمتی عمل اور مفاہمتی پالیسیوں سے ملک اور قوم کے مفادات کو کس طرح بالائے طاق رکھ کر اِنہیںبجلی اور گیس کے بحرانوں، مہنگائی ، کرپشن، اقرباپروی، لوٹ مار، بھتہ خوری، قتل وغارت گری، دہشت گردی ، فرقہ واریت، بم دھماکوں میں جکڑکر دیوار سے لگایااِس سے کون ایسامحب وطن پاکستانی ہوگاجو واقف نہ ہو۔
مگرپھربھی آج یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اِس سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اُمیدوار ناجانے کس خوش فہمی میں مبتلاہیں اور آج ایک مرتبہ پھر یہی لوگ 2013کے انتخابات میں پھر اپنا سینہ ٹھونک کر اور گردنیں تان کرانتخابی عمل میں اِس اُمید پر گود پڑیں ہیں کہ عوام اِن کے ساتھ ہے، کیوں کہ اِنہوں نے ملک اور قوم کے لئے اتنااچھاکردیاہے کہ ماضی میں اتنا اچھاکوئی بھی حکومت یا کوئی بھی حکمران جماعت مُلک اور عوام کے لئے نہیں کرسکی ہے۔
Political Party
جب کہ یہ سب جانتے ہیں کہ ختم ہونے والی حکومت نے ملک اور قوم کے لئے کیا کیا ہے …؟اِس پر آج ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ سابقہ حکمران جماعت والے اپنے گریبانوں میں خود جھانک لیتے اور انتخابات میں حصہ لینے سے قبل اپنامحاسبہ خود کرلیتے توکتنا اچھاہوتا…بہرحال…!آج اگر یہ لوگ اپنی مصروفیاتی روش کی وجہ سے کسی خوش فہمی کی بناپر ایسانہیں کرسکے ہیں تو کوئی بات نہیں گیارہ مئی کو عوام خود اِن کا احتساب کردے گی۔
اِنہیں شکست فاش سے دوچار کرکے اِن کی خوش فہمیوں کے بت چکناچورکردینے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑیں گے،بس ذراگیارہ مئی تو آلینے دو..اور اِس روزالیکشن تو ہونے لینے دو…پھر دیکھیں گے، کتنوں کے تاج اُلجھالے جائیں گے، اور کس کس کے بت گرائے جائیں گے،کوئی کچھ بھی کہئے مگر حقیقت یہی ہے کہ آج سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کے باعث اِس جماعت کی حیثیت عوام کی نظر میں اُس بوسیدہ قبر کی طرح ہوکررہ گئی ہے۔
جو بُری طرح سے منہدم ہوگئی ہے اِس کا نام ونشان مٹ گیاہے اگرآج اِس کی کوئی نشانی باقی رہ گئی ہے تو صرف اِس قبرکا کتبہ ہے ،جس کی وجہ سے شاید عوام اِس کو پہنچان کر یا ترس کھاکرووٹ دے دیں ورنہ تو پی پی پی میں اَب ایسی بات کہاں ..جواِس قابل بھی ہو۔ تحریر : محمداعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com