سانحات’ مگر غفلت کی نیند

Suicide Attack

Suicide Attack

آج ہم ایک ایسی جمہوریت میں جینے پر مجبور ہیں جہاں اٹھارہ کروڑ عوام کو شک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ انہیں اپنے ہی وطن میں بیگانہ بنا دیا گیا ہے۔ ہر نیا دن کہیں نہ کہیں خود کش حملہ، دھماکہ، نشانہ وار قتل، جس میں عوام ہی تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ اور اس پر ستم یہ کہ حکومت کسی کی داد رسی میں دلچسپی بھی نہیں لے رہی ہے ۔ اگر حکومت کسی کو گرفتار بھی کرتی ہے تو عدم ثبوت کی بناء پر وہ عدالت سے بری کر دیئے جاتے ہیں۔معاشرے میں اس قدر تباہی و بربادی کے سانحے رونما ہو چکے ہیں کہ اب اس معاملے میں تسلی سے بیٹھنا قطعی ظلم ہوگا ۔ ایسے میں نوجوانوں کی زندگی میں تلخی اُبھر رہی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ بہتر یکسوئی کی زندگی کب میسر ہوگی۔

سانحہ عباس ٹائون کی طرف شکستہ دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ آج جانا ہوا ۔وہاں پہنچ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ایک قیامتِ صغرا ہے جو مچا ہوا ہے۔ ہر طرف تباہی کے آثار نظر آرہے تھے۔ فلیٹوں کے مکین کسمپرسی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور نظر آتے تھے۔ جوانوں کے لاشے اُٹھاتے اُٹھاتے لوگ تھک گئے ہیں ، جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ اُن لوگوں کو امداد کی ضرورت پیش آ گئی ہے جوکل تک آسودہ حال تھے۔ آج وہاں اپیلیں کی جا رہی تھیں کہ بچوں کے لئے دودھ، پیمپر، بسکٹس اور دوسری ضروری چیزوں کی سخت ضرورت ہے۔ ” اللہ اکبر”

یہ بات روز روشن کی طرح صاف ہو چکی ہے کہ دہشت گردوں کا گروہ برسوں سے ملک میں دھماکے کر رہا ہے تو حکومت اس معاملے کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں کرتی۔ کیوں عوام کی زندگیوں سے کھیل کھیلا جا رہا ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔امن و امان کے ترسے ہوئے لوگ حکومتی غفلت اور خاموشی پر محوِ حیرت ہیں۔ اب تو لوگ شادی کی تقریبات میں بھی ہونے والے پٹاخوں کی آواز پر بھی سہم جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے یہاں وزیروں اور مشیروں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے مگر سوائے بیان بازی کے کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آتا۔ حکومت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتی بس ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے بری الذمہ ہو جاتی ہے ۔عام طور پر دنیا بھر میں ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا ہے جب کہ اسلام بلکہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی تو اجازت ہی نہیں دیتا۔ عوام تو اپنے وطن سے غداری کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تو یہ کون ہیں جو عوام کا خونِ ناحق بہا رہے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی کی جڑیں پاکستان میں بہت مضبوط ہو چکی ہیں اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے کرتا دھرتابھی ملک میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور عوام امن و امان کی وجہ سے راتوں کی نیندیں حرام کر چکے ہیں۔حکومتِ وقت ، تفتیشی لوگ کے دہرے پیمانے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک میں مساوات، برابری ، انصاف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ورنہ کیا وجہ ہے کہ آج تک امن و امان جیسی بنیادی مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکا۔
یہی وہ روشنیوں کا شہر تھا جہاں لوگ رات گئے تک سیر سپاٹے میں مصروف رہتے تھے مگر اب دن ڈھلے ہی گھروں کی واپسی کو عافیت گردانتے ہیں۔ مگر پھر بھی کسی کا ضمیر بیدار نہیں ہورہا آخر کیوں؟ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی شہر میں صفِ ماتم بچھ جاتا ہے اور پھر مذمتی بیانات، رپورٹ طلب کرنا، اور بس! اس کے آگے کچھ نہیں ہوتا۔ آخر کیوں؟عوام کی غلطی کہاں ہے کہ جس وجوہ کی بناء پر انہیں امن و امان ، مہنگائی ، بیروزگاری، نشانہ وار قتل سے نجات دلانے کے لئے کوئی آگے نہیں آ رہا ہے۔اگر ملک میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کئے گئے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب فرقہ پرستی کی جڑوں کی بنیادیں مضبوط ہوجائیںاور جب مغربی طاقتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر اس ترقی پذیر ملک کے ٹکرے کرا دیں (خاکم بہ دہن) اور پھر صدیوں کے لئے ہمارا ملک بکھر کر رہ جائے، بقول علامہ کے : ” تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”

Abbas Town

Abbas Town

ہمارے یہاں کے موسم بھی عجیب ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کبھی عوام کو دھرنوں کی پَل پَل کی خبریں اس طرح فراہم کرتا ہے جیسے مداری اپنا کرتب دکھاتا ہے تو کبھی اچانک کسی خود کش حملے کی سفاکیت ساری قوم کو فرطِ غم سے مغلوب کر دیتی ہے اور کبھی امن کانفرنس کا شور وغوغا ہوتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ زندگی پر موت کا پہرہ لگا ہوا ہے،آپ چاہے خود کو جتنا فریب دیں موت کا ساتھ چولی دامن کی طرح ہمارے ساتھ ہے۔ مگر اس طرح موت کے آنے کو ناگہانی کہتے ہیں جس طرح عباس ٹائون میں ہوا۔ کیا ہمارے حکمرانوں اور ہمارے ملک کے دیگر سیاسی ارباب کو مرنا نہیں ہے، کیا انہیں اپنے اعمالوں کی جواب دہی نہیں کرنی، اب بھی وقت ہے نہ جانے کب مہلتِ عمل ختم ہوجائے زندگی کی ہمسفر کی طرح موت سب کے ساتھ چپکی ہوئی ہے نہ جانے کب کہاں اُچک لے۔ پھر کچھ بھی نہیں بچے گا بس رہے گا نام اللہ کا۔

معاشرہ جس برق رفتاری سے بدل رہا ہے اس دوڑ میں انسانی نفسیات بھی اپنا روپ رنگ بدل رہے ہیں۔ ایک اچھا معاشرہ بہترین اقدار کا حامل ہوتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے یہاں اچھے اقدار تو ہیں مگر ساتھ ہی بے سکونی بھی غالب ہے۔ دہشت گردی کی دہشت ناک ہولناکی سر اٹھائے کھڑی ہے اور ہر وقت موت کے بادل سروں پر منڈلا رہے ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں کب کہاں کیا ہوجائے جیسا کہ بیانات دینے والوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ بجائے اس سلسلے کو روکنے کی کوئی تدبیر کی جاتی ہر روز نئے بیان کے ذریعے عوام کو خوف و دہشت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔فسطائی قوتوں کے کارناموں پر ہم ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو بخوبی مشاہدہ ہوتا ہے کہ یہ قوتیں اپنی مذموم حرکتیں کئی برسوں سے کرتی آئی ہے اور ان کی ساری حرکتیں انسان دشمنی کے زمرے میں آتی ہیں۔ کیا حکومتیں فسطائی طاقتوں کے سامنے سر نگو ہو چکی ہیں یا اس پر کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں یا پھر یہ کام کیئر ٹیکر سیٹ اپ یا پھر نئی آنے والی حکومت کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔
پاکستان کے عام باشندوں کو جو امن پسند اور صالح ہیں انہیں بوکھلانے کے لئے اور اس سے زیادہ ملک کے سسٹم کو ڈی ریل کرنے کے لئے ایسی سفاکی کی جا رہی ہے۔ انتظامیہ اپنے فرائض منصبی نبھانے کے لئے حرکت میں تو ضرور آتی ہے تاکہ امن و امان بحال رہے اور لوگ پریشانیوں سے نجات پائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ میں سرکردہ افراد کے ذہن زہر آلود کر دیئے گئے ہیں اور ایک خاص نقطۂ نگاہ سے ان کے عمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔

Army

Army

ہماری ترقی کی شرح میں بھی اسی امن و امان کے اثرات کارفرما ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور عوام کی داد رسی نہ کی گئی تو اس کے سنبھلنے کے آثار بھی نہیں ہیں۔ اب امن و امان کس طرح قائم کیا جائے یہ فیصلہ کرنا حکمرانوں کا کام ہے ، صورتحال تو ایسی ہو چکی ہے کہ عوام اب فوج کو پکار رہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ امن و امان مخص خوشنما دعوئوں سے تو نہیں آئے گی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی فیصلہ کرنا ہوگاتاکہ اس ملک کے لوگ بھی خوشحالی اور امن و امان سے بھرپور زندگی گزار سکیں۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی