اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے ضلع جہلم میں جولائی میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سے جنسی زیادتی اور قتل کی عدالتی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ وکیل دفاع محمد آصف نے بتایا کہ منگل کو یہ مقدمہ 28 سالہ سامیعہ شاہد کے والد محمد شاہد اور سابقہ شوہر محمد شکیل کے خلاف شروع ہوا ہے۔
ان کے بقول عدالت نے ملزمات کو الزامات کی فہرست دے دی ہے جنہیں سات اکتوبر تک یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں نہیں۔ سامیعہ جولائی میں اپنے گاؤں پنڈوری آئی تھیں جہاں ان کے خاندان کے بقول وہ حرکت قلب بند ہونے سے طبعی طور پر انتقال کر گئیں۔
لیکن سامیعہ کے شوہر کاظم مختار نے الزام عائد کیا کہ ان کی اہلیہ کو ان کے خاندان نے دھوکے سے بلا کر غیرت کے نام پر قتل کیا کیونکہ وہ ان دونوں کی شادی پر راضی نہیں تھے۔
پولیس نے مقتولہ کے قتل کا مقدمہ ان کے والد اور سابقہ شوہر کے خلاف دائر کیا تھا جب کہ دوران تفتیش فرانزک تجزیے سے یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ سامیعہ کو قتل کرنے سے پہلے ان کے سابقہ شوہر نے انھیں مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔
پاکستان میں “غیرت کے نام پر قتل” کوئی غیر معمولی بات نہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہر سال یہاں سیکڑوں خواتین کو ان کے خاندان والے غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی کرنے جا رہی ہے تاہم مبصرین کا موقف ہے کہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں کو بدلنے کے لیے مہم چلانے سے ہی “غیرت کے نام پر قتل” کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔