آج کل جملوں اور عنوانات پر کون غور کرتا ہے۔ حالانکہ ٹھنڈے دل سے صرف عنوانات پر ہی صرفِ نظر کر لیا جائے تو پورے مضمون کا خلاصہ مل سکتا ہے۔ چونکہ ہم لوگ بہت تیز رفتار زندگی کی طرف مائل ہو چکے ہیں اس لئے پورا مضمون لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ اس لئے کہ کب تک بلا عنوان لکھا جائے گا ، ذرا ان جملوں کی طرف غور کریں حکومتوں میں بھی فرقہ پرست عناصر موجود ہوتے ہیں یہاں عوام کو انصاف نہیں مل پاتا ہے۔
یہاں کسی مجبور و بے کس فرد کی داد رسی کوئی نہیں سنتا اس طرح کے جملے ظاہر ہے کہ میرے نہیں ہو سکتے ، اگر یہ میرے ہوتے تب بھی ہمیشہ کی طرح اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس لئے کہ تجزیہ کاری کی زندگی میں اس قسم کے جملے اتنی بار نظرِ سامعین کر چکا ہوں کہ اب بارِ گراں محسوس ہوتا ہے۔ ایسے جملے آج کل میڈیا میں بہت زوروں پر سنائی دیتے ہیں مگر ارباب شاید کانوں میں روئی ڈال کر بیٹھے ہیں یا پھر انہوں نے کچھ نہ سننے کی قسم کھا رکھی ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اُن ارباب کا شکریہ کس طرح ادا کیا جائے کہ جنہوں نے عوامی مسائل کی طرف اور اس کے حل کے لئے قدم بڑھائے ہیں۔ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُوْ مِنْ بِاللّٰہ الٰلوُ والمرجان ، ترجمہ تم میں سے جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ آولہ وسلم پر ایمان رکھے اس کو چاہیئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے ، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے ، ماں باپ کا احترام کرے۔ اب ذرا غور فرمایئے میرے ہم وطنو!کہ جس کے کاندھے پر حکمرانی کا بوجھ ہو وہ اگر عوام کی داد رسی نہ کرے۔
عوام کی فریاد نہ سنے تو کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ آولہ وسلم ایسے حکمرانوں سے ناراض نہیں ہو گا۔ یقینا ہو گا۔ کیونکہ ایسے حکمرانوں کا محاسبہ عوام تو کرتے ہی ہیں مگر اللہ تبارک و تعالیٰ بھی ان سے باز پرس ضرور کرے گا۔ ہمارے آج کے حکمرانوں کا کیا کہنا کہ عوام مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور انہیں چین کی نیند آ جاتی ہے۔ بیانات دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے عوام کی مشکلات کو حل کر دیا ، یہاں تو ایک طرف لاشے گِر رہے ہوتے ہیں۔
Allah
اور حکمران چین کی بانسری بجانے میں محو رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ہوتا ہے نا کہ آپ بہت زیادہ مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ آپ کو سجھائی نہیں دیتا۔ آپ ہرطرف سے لاچار اور بے بس ہوتے ہیں۔ روز بروز زندگی کا گھیرا تنگ ہوتا جاتا ہے اور آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا ہوجو اس مشکل سے نکلنے میں آپ کی مددکرے یاآپ کی ہمت بندھائے اور آپ کی ساری پریشانی ، دکھ اور تکلیف کو سمیٹ لے اور آپ ہر پریشانی سے آزاد ہو جائیں۔
اس کرۂ ارض پر ایسی ایک ہی ہستی ہے،بے غرض محبت کرنے والا ، بے شمار چاہتیں لٹانے والا اور آپ کے ہر دکھ کا مداوا کرنے والا اللہ۔ تو کیوں نہ اللہ سے ہی مدد مانگا جائے۔ اور اگر دنیاوی لوگوں سے وسیلہ کے طور پر مدد مانگنی ہے تو اس وقت ملک میں نئے منتخب وزیر اعظم موجود ہیں۔ کل اور آج میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ آج کل ان کے تیور کام کرنے اور مسائل حل کرنے کے نظر آتے ہیں۔ اس لئے ہم اور آپ سب یہ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب ہماری زندگی تو دھوپ کی مانند ہے۔
مگر آپ اس پر گھنا سایہ بن جائیں تاکہ اس ملک کے عوام کی پریشانیاں ختم نہ سہی کچھ کم تو ہوں۔ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ نے ہر طبقہ کی ناک میں دم کر رکھاہے۔ پاکستان بھر کے عوام کی زبان پرایک ہی بات ہے مہنگائی نے مار ڈالا ، لوڈ شیڈنگ نے جینا حرام کر دیاہے۔ خیر عوام کا تو کام ہی چیخنا چلانا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ان تمام مسائل سے شدید دوچار ہیں ورنہ کسی کی چیخ خواہ مخواہ کہاں نکلتی ہے۔
بہرحال اُمید پر دنیا قائم ہے دوستو ابھی کل کی بات تو ہے کہ نئی حکومت نے اپنی پہچان آپ سے کروائی ہے اور کل ہی وزیر اعظم صاحب نے اپنے عہدے کا حلف بھی لیاہے۔ تو ذرا ٹھہریئے مسائل ستان سے مسائل تک پہنچنے میں کچھ وقت تو درکار ہوتاہی ہے نا۔ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں اس لئے یہاں پر انگریزی کے اس جملے کاسہارا لینا پڑے گا کہ بہرِ کیف موجودہ نئی حکومت سے عوام نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیئے۔
Election
کیونکہ الیکشن سے پہلے کے وعدوں کو اب نبھانے کے دن آچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت وہی پرانے ڈگر پر چلتی ہے یا پھر گرما گرم قرار دادوں کو پاس کروا کر عوام کے مسائل کم کرتی ہے۔ عوام اپنی اصلاح و احوال کی امید اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک انہیں اپنے مسائل کے تئیں کچھ کمی نظر نہ آجائے۔ جن خواہشوں کو عوام نے اپنے اندر پِرو لئے ہیں انہیں ٹھوکروں پر نہیں رکھا جاسکتا۔
اور نہ ہی آنکھوں کا سُرمہ بنایا جاسکتا ہے کہ جب جی چاہا لگا لیا۔ اور جب جی چاہا دھو دیا۔ آج کا معاشرہ اور عوام تو واقعی مسائل کا حل چاہتی ہے اور موجودہ حکومت نے بھی ابھی تک مسائل کے حل کے لئے سر توڑ کوششیں کرکے اجلاس در اجلاس کا معاملہ جاری رکھا ہوا ہے۔
بس دیکھئے کس روز سے آپ کے مسائل میں کمی کا رجحان آتاہے۔ ہماری دعا ہے کہ عوامی حکومت عوامی کی فلاح و بہبود کے لئے ضرور اقدامات کرے گی۔ خدا میاں صاحب کو عوام کے توقعات پرپورا اترنے کی صلاحیت عطا کرے۔ وگرنہ تو اس مضمون کے عنوان کی طرح ہر لکھائی ریت پر لکھنے کے مترادف ہی ہو گا کہ چاہے جو کچھ بھی لکھ دیا جائے وہ مٹ ہی جائے گا۔