تحریر : احمد نثار سلطنتِ مغلیہ کے دور کا ‘مکتب خانہ’ یا مرکزِ تراجم اور اس کے ادبی لسانی اور مذہبی خدمات کو فراموش نہیں کیا سکتا۔ اس کے کارنامے ہندوستان کے گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے آئنہ دار ہی نہیں بلکہ مذہبی و مسلکی رواداری کے بھی حامل ہیں جو عہدِ وسطیٰ کے لئے محدود نہیں بلکہ دورِ حاضر کے لیے بھی سنگِ میل ثابت ہوئے ہیں۔
جب اس مکتب خانہ کا ذکر ہوتا ہے تو خلافتِ عباسیہ دور کا بیت الحکمہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جو کہ دنیا بھر کے علوم و فنون و دیگر ادیان کے کتب کے تراجم کا ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس بیت الحکمة کے بدولت ہی آج کی سائنس اتنی ترقی پائی ہے ورنہ آدھے ادھورے علوم سے دنیا آج بھی جوجھتی ہوئی نظر آسکتی تھی۔ مغلیہ دور کا مکتب خانہ بالکل اسی کے مانند رہا اوردنیائے تراجم میں اپنا اثر رسوخ جنوبی ایشیا پر رقم کیا ہے۔
مغلیہ سلطان جلال الدین محمد اکبر کو ، تاریخ اس کے فراخدلی اور دور اندیشیوں کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس نے بھی سائنسی اور ادیانی کتب کے تراجم کروائے۔اکبر اپنے دور میں، ١٥٧٤ء کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت اس کی دارالسلطنت فتح پور سکری میں ایک مکتب خانہ قائم کیا گیا۔ اس کا اہم مقصد یہ تھا کہ سنسکرت، چغتائی اور ترکی زبانوں میں موجود کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کیا جائے اور اسی طرح عربی زبان میں موجود دائرةالمعارف کا ترجمہ بھی فارسی میں کیا جائے۔
اس تاریخی کارنامے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چند اہم کتابوں کا انتخاب کیا گیا۔ سنسکرت کتب رامائن، مہابھارت (جیا سمہتا)، راجا ترنگینی (کشمیری بادشاہوں کی تاریخ) کا ترجمہ فارسی میں کیا جائے۔اب ہم ان کتابوں میں سے مہابھارت کا ذکر کریں گے۔ اس کے ترجمہ کا نام ‘رزم نامہ’ رکھا گیا۔ رزم یعنی جنگ اور نامہ یعنی داستان۔ رزم نامہ کے ادبی معنی ‘کتابِ داستانِ جنگ’ یا پھر ” داستانِ جنگ” کے ابھر کر آتے ہیں۔
Razm Nama-Manuscript Mohan (Son_of_Banwari)
سلطان نے ان تراجم کی ذمہ داری سلطنت کے ماہر ادبی شخصیات پر مبنی ایک مجلس کو سونپی۔ اس مجلس کا نام ‘مکتب خانہ’ تھا۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے تمام تر سہولیات فراہم کی گئیں۔
اس مجلس کے اراکین ذیل کے تھے؛ ٭ نقیب خان ابن عبداللطیف الحسینی (مورخ) بحیثیتِ سربراہ۔ ٭ عبدالقادر بدایونی (معتمد) ٭ ملا شیری (شاعر)
رزم نامہ کا پہلا نسخہ ٨٦۔١٥٨٤ ء کے درمیان مکمل ہوا۔ اور دوسرا نسخہ جس میں مزید وضاحتیں شامل کی گئی تھیں ٩٩۔١٥٩٨ء کے درمیان تکمیل کو پہنچا۔ یہ دونوں تحریری نسخے ١٦١ رنگین تصاویر کے ساتھ مکمل کئے گئے۔ مہابھارت جس میں ١٨ باب اورایک لاکھ شلوک ہیں نہایت عمدہ طریقے سے فارسی ترجمہ کردہ معنی و مفہوم سے لبریز اور دیدہ زیب ‘رزم نامہ’ کو شاہنشاہ اکبر کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
حیرت اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے متراجم دونوں زبانیں سنسکرت اور فارسی کے ماہرین نہیں تھے۔ چند سنسکرت ماہر ین ، دیو مشرا، ستاوادھانا، مدھوسودھنا مشرا ور شیخ بھون جیسے برہمن پنڈتوں نے مہابھارت کی داستان کو ہندی میں بیان کیا اور مجلس ثلاثہ نقیب خان، بدایونی اور شیری نے اس کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ مفہوم یہ کہ یہ ترجمہ ”زبانی بیانیہ کا فارسی ترجمہ” ہے۔ یہ سارا کام بحسن خوبی ڈیڑھ سال میں مکمل ہوا۔
اس کتاب کا پیش لفظ ابوالفضل یوں لکھتے ہیں کہ ” اس ترجمہ کا اہم مقصد مذہبی رواداری، ہم آہنگی اور یکجہتی کا قیام ہے”۔ عبدالقادر بدایونی نے بھی اس بات کواپنی تحریر میں تصدیق کیہے۔ رنگین تصاویر کو شاہی دربار کے ماہر فنکار اور مصوروں نے تیار کیا۔ ان تراجم کا اہم مقصد ہندو اور مسلم برادری کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا راستہ ہموار کرنا، اور ایک دوسرے کے مذاہب کو سمجھنا اور ان کی عزت کرنا تھا۔ اکبر نے رزم نامہ کی کاپیاں اپنی سلطنت کے امراء شرفاء اور شاہی خاندان کے اہم افراد کو تحفے میں پیش کیا۔ اور یہ تاکیدنامہ بھی جاری کیا کہ اس کتاب کو اللہ کی جانب سے تحفہ سمجھا جائے، جس کی مدد سے ہندو دھرم کے اصولوں کو سمجھا جاسکے، اور ہندو برادری کے ساتھ رواداری سے پیش آ سکیں۔
رزم نامہ کا پہلا نسخہ بھارت کے شہر جئے پور کے ‘سٹی پیلس میوزیم’ میں محفوظ کیا گیا ہے۔ دوسرا نسخہ شہر لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ یورپ، بھارت اور شمالی امریکی افراد کے پاس بھی اس کی کاپیاں ہیں مگر اس کے اوراق چیدہ چیدہ پائے گئے۔ اُس دور میں پرنٹنگ کی سہولیات نہیں تھیں، بہت ساری کاپیاں بنانا کافی مشکل کام تھا اس لئے اس کی کاپیاں سادہ وضاحتوں، مہ تصاویر ، مرتب کئے گئے جاتے تھے۔ ایسے نسخوں کو، ترجمہ کے کئی سال بعد میں شائع کیا گیا تھا۔حسب ضرورت کاپیاں بنائی اور تقسیم کی جاتیں۔