گزشتہ دنوں فیصل آباد کے علاقہ جڑانوالہ میں برف فروش کے ہاتھوں 8 سالہ بچے ثاقب علی کے قتل کا دل دھلادینے والا اندوہناک واقع پیش آیا۔ جب نیوز چینلز نے یہ خبر نشر کی کہ فیصل آباد میں شہباز عرف کالا نامی برف فروش نے برف کا ایک ٹکڑا اُٹھانے پر طیش میں آکر بر ف توڑنے والا سواء 8 سالہ ثاقب علی کے سر میں مار کر شدید زخمی کردیا ہے، ساتھ ہی بچے کے جاںبحق ہونے کی خبر نشر ہو گئی۔ اُس وقت نیوز چنیلز دیکھنے والوں کی آنکھیں نم تھیں۔ ہر کوئی اپنے انداز میں برف فروش کو کوسنے کے ساتھ ساتھ ثاقب علی کے والدین کے لئے دعا گو تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر آئی جی پنجاب پولیس کو ہدایت جاری کرتے ہوئے حکم صادر فرمایا کہ مجرم کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔
پولیس نے برف فروش کو گرفتار بھی کر لیا اور ملزم برف فروش شہباز عرف کالا کے خلاف مقتول ثاقب علی کے والد عبدالغفار کی مدعیت میں تھانہ صدر جڑانوالہ میں بھی مقدمہ درج کر لیا گیا۔ یہ یقینا ایک دل تڑپا دینے والا واقع ہے جس کی مذمت ہرکسی نے کی۔ کسی نے برف فروش کو سفاک قاتل کہا۔ کسی نے درندہ، کسی نے ظالم ،کسی نے وحشی اور کسی نے جانور کہہ کر اپنے دل کی بڑھاس نکالی۔ ایک برف کے ٹکڑے کی وجہ سے 8 سالہ معصوم کو اتنی بے دردی سے قتل کرنا بہت ہی ظالمانہ عمل ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بے شک برف فروش شہباز عرف کالا ایک درندہ صفت ظالم انسان ہے جسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہے۔ یہ ہے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی عام اور وافر رائے ۔اس رائے کو فطری عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے کہ دیہاتی عورتیں اکثر بولتی ہیں کہ (کنا کٹھور اے نی اے بندہ اینوتے قید ہو جانی چائی دی اے) یعنی سڑک پر اکثر ہم حادثے دیکھتے ہیں ۔لوگ حادثے کی جگہ بھاگ کر پہنچتے ہیں بڑے تجسس کے ساتھ دوسروں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ کر زخمیوں کی حالت کا اندازہ لگانے کے بعد کہتے ہیں۔اندھے ہوکرچلاتے ہیں یہ لوگ گاڑیاں، اِن کو نظر ہی نہیں آتا، اگر یہ کم رفتار میں گاڑی چلائیں تو زیادہ سے زیادہ پانچ، دس منٹ زیادہ لگ جائیں گے منزل تک پہنچنے میں لیکن کسی کی جان تو بچ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے بھائی۔
سڑک پر ایک شخص زخمی حالت میں ہماری مدد کا طالب ہے لیکن ہم اُسے اُٹھانے کی بجائے گاڑی والے کو بُرا بھلا کہنے کے بعد اپنی راہ چل دیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقع کا نوٹس لے کر ملزم کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے ثاقب علی کے والدین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش تو کردی لیکن اس واقع کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی۔ یوں تو خبر میں صاف صاف بتا دیاگیا تھا کہ 8 سالہ ثاقب علی 10 روپے کی برف لینے شہباز عرف کالا برف فروش کے پاس گیا اور اُس کی برف میں سے چھوٹا سا ٹکڑا اٹھا لیا جس پربرف فروش نے گالی دی، گالی دینے سے منع کرنے پر برف فروش طیش میں آگیا اور برف توڑنے والے سوائے سے بچے کے سر پر وار کردیا ۔وار اتنا شدید تھا کہ بچہ جانبر نہ ہوسکا۔ بات بہت سادہ اور سیدھی ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
Load Shedding
یہاں بہت سے سوالات سر اُٹھا کر اہل اقتدار اور معاشرے سے جواب مانگ رہے ہیں۔ کیا برف فروش کے پاگل پن کی وجہ صرف یہ تھی کہ بچے نے برف کا ٹکڑا اُٹھا لیا تھا ؟ ہرگز نہیں یہ سلسلہ برف فروش کے ساتھ سارا دن جاری رہتا ہے (لیکن خیر حکمران یہ بات نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ کبھی برف کے پھٹے سے برف نہیں خریدتے )کون کہتا ہے کہ کوئی انسان اتنا ظالم ہوسکتا ہے کہ برف کے چھوٹے سے ٹکڑے کی خاطر کسی معصوم کو قتل کردے ؟ برف فروش ضرور پہلے سے پریشان تھا، اُس کی غربت اُس کا منہ چڑا رہی ہو گی۔ بے روزگاری، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ نے ہر پاکستانی کی طرح اُس کا دماغی توازن بھی بگاڑ دیا ہوگا۔ نہ آنے والی بجلی کے آنے والے بل نے جان نکال رکھی ہوگی۔ مالک مکان کرایہ وقت پر نہ ملنے کی وجہ مکان خالی کرنے کا کہہ رہا ہو گا۔ محلے کے دکاندار نے مزید راشن اُدھار دینے سے انکار کردیا ہو گا۔
غربت کی ہنڈیا کو کسی امیر نوابزادے نے اُس کی غربت کو گالی دے کر دولت کے نشے کا تڑکا لگایا ہو گا۔ اگر ان ساری وجوہات میں سے کوئی بھی اُس کے پاگل پن کی وجہ نہ تھی تو پھر ایک بات لازم ہے کہ میری طرح اُس کی بھی دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت میں بہت کمی رہ گئی ہو گی۔ ورنہ صرف ایک برف کے ٹکڑے کی خاطر اتنا بڑا ظلم انسان تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب بچہ دس روپے کی برف خرید ہی رہا تھا تو اُس نے پہلے برف فروش کی برف کیوں اُٹھائی ؟ اور اگر بچے نے برف اُٹھا ہی لی تھی تو برف فروش اتنی طیش میں کیوں آگیا ؟ جہاں تک بات ہے بچے کے برف اُٹھانے کی تو ہمارے ہاں یہ عام سی بات ہے ہم سب ہی خرید و فروخت کرتے وقت تھوڑی سی چیز ضرور اُٹھا کر دیکھتے ہیں۔ گرمی کے عالم میں پیاس نے معصوم کو برف کا ٹکڑا اُٹھا کر لب ٹھنڈے کرنے پر مجبور کر دیا ہو گا۔
باقی رہی بات برف فروش کے طیش میں آنے کی تو کون نہیں سمجھ سکتا کہ برف فروش غریب آدمی ہوگا (جو آج کل خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ )حد سے زیادہ لوڈشیڈنگ اور گرمی کی شدت کی وجہ سے برف کے کار خانوں میں برف کی پیداوار کم، برف کا معیار بھی ناقص ہوتا ہے اور ریٹ ڈبل سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں، برف فروش رات بھر کارخانوں کے باہر بیٹھ کر صبح برف ملنے کا انتظار کرتے ہیں۔ برف ،برف فروش کے پھٹے تک پہنچتے پہنچتے آدھی رہ جاتی ہے، جوں جوں غریب برف فروش کی برف پگھلتی ہے توں توں نقصان کے اندیشے بڑھتے جاتے ہیں۔ جس انسان نے برف فروخت کرکے شام کو بچوں کا رزق خریدنا اور صبح برف کے لئے اصل رقم بھی قائم رکھنی ہوتی ہے اُس کی پریشانی صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو غربت کے عالم میں زندگی بسر کرتا ہے۔
Terrorism
میں نہیں جانتا کہ فیصل آباد کے برف فروش شہباز عرف کالا کی زندگی کن مشکلات کا شکار تھی یاہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ دور حاضر میں ایک غریب کی زندگی کس قدر مشکلات سے دوچار ہے۔ سنا ہے کہ قاتل برف فروش پاگل نہیں بلکہ نارمل انسان ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ عر ض ہے کہ برف فروش شہباز ہی نہیں بلکہ مہنگائی،بے روزگاری، دہشتگردی، لوڈشیڈنگ، مایوس اور نااُمیدی نے پوری پاکستانی قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ جب انسان حالات سے تنگ آکر کو خود کشی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے تو پھر اُس کے نزدیک کسی دوسرے کی جان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ ظالم برف فروش نے بھی معصوم بچے کو قتل کر کے خودکشی ہی کی ہے۔ انسان کے خودکشی پر مجبور ہونے کی ایک وجہ تو انتہائی غربت ہے اور دوسری اہم وجہ دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے جو انسان کو مشکل حالات میں صبر کا دامن تھامے رکھنے کا نہ صرف درس دیتے ہیں بلکہ حوصلہ بھی پیدا کرتے ہیں۔
اس قتل کے پیچھے صرف برف فروش کا طیش نہیں بلکہ معاشرے میں پایا جانے والا عدم برداشت کا ماحول ہے۔ دو دن پہلے گرین ٹائون لاہور میں ایک نوجوان نے بجلی کے تاروں سے چمٹ کر خودکشی کر لی، یہ خودکشی کرنے والا نوجوان بھی معصوم تھا کس کو اُس کا قاتل کہیں ؟ کس کو وحشی، درندہ، ظالم اور جانور کہیں ؟ وزیر اعلیٰ نے کیونکہ نوٹس لے کر کسی کو گرفتار کرنے کا حکم صادر نہیں کیا؟ کیوں کسی کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا ؟آخر یہ بھی تو کسی ماں کا بیٹا تھا، کسی بہن، بھائی کا بھائی تھا،کسی کا شوہر تھا ،کچھ نہ تھا لیکن انسان اور پاکستان کا شہری تو تھا۔ میں پوچھتا ہوں اہل اقتدار سے، میں پوچھتا ہوں معاشرے سے کیوں اس نوجوان کے قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
کیوں کسی کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا ؟ اگر ہمت ہے تو کرو اہل اقتدار کے خلاف مقدمہ درج، اگر ہمت ہے تو کرو اس معاشرے کے خلاف مقدمہ درج جو غریب کو نیچ گھٹیا سمجھ کر دھتکارتا ہے یہاں تک کہ انسان خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ برف فروش کو سفاک کہیں یا ظالم ،عمر قید کی سزا دیں یا سولی پر چڑھا دیں جب تک اہل اقتدار غریب کے لئے دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مناسب روزگار کا اہتمام نہیں کرتے تب تک ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔میری نظر میں معصوم ثاقب کا قاتل صرف برف فروش نہیں بلکہ میں آپ اور سارا معاشرہ بھی ہے۔