تحریر : سردار محمد طاہر تبسم سردار عبد القیوم خان کی وفات سے تحریک آزادی کشمیر کا ایک طویل جاندار اور روشن باب ختم ہوگیا وہ ایک فرد نہیں بلکہ ھمہ جہت شخصیت ایک مکمل ادارہ ایک جاندار تحریک اور چلتی پھرتی تاریخ تھے ۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کے بعد سردار عبد القیوم خان کا سانحہ ارتحال بیحد نقصان کا حامل ہے ،انکا عزم حوصلہ و لولہ اور جہدمسلسل تحریک آزادی کشمیر کیلئے ہمیشہ مہمیز کاکام کرتی رہی ،وہ ایسا جو ہر تابناک تھے کہ جن کی وجہ سے کشمیر کے دونوں اطراف میں پاکستان کے ساتھ غیر مشروط پختہ وابستگی تھی اور پاکستان کو اپنا محدود مرکز سمجھا جاتا تھا انکی رحلت سے نظریاتی وفکری جدوجہد اور عزم کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے ۔جس کی کمی شائد پوری ہونی محال ہے ۔ریاست جموں و کشمیر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس تحریک آزادی کشمیر کے منطقی انجام کو الحاق پاکستان سمجھتی رہی ہے ۔جن کیلئے رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس،غازی ملت سردار ابراہیم خان اور میرواعظ مولانا یوسف شاہ اور انکے ساتھیوں نے ہمیشہ بہادری اور جرات مندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا ہے۔
جن کے بعد سردار عبد القیوم خان نے اس مقدس مشن کو پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رکھا بلکہ ” کشمیر بنے گا پاکستان” کا الحامی نصب العین دیکر اسے کشمیریوں کی تین نسلوں میں زندہ و جاوید رکھا۔اس جدوجہد میں بڑے طوفان آئے آندھیاں آئیں اور پہاڑ الٹے لیکن انہوں نے اس سبق سے کشمیریوں کو ھٹنے نہیں دیا بلکہ اس کو مزید مضبوط و منظم اور فعال کرنے کیلئے نت نئے اقدامات اٹھائے اور اسکی اہمیت و افادیت اور ھمہ گیر یت میں ذرا بھر کمی نہیں آنے دی بلکہ نظریاتی و فکری لام بندی کا عمل ہمیشہ جاری رکھا ۔سردار عبد القیوم خان نے1947میں خطے کی آزادی میں عملی کردار ادا کیا ۔18ماہ کے جہاد میں باغ کے سیکٹر کمانڈر رہے اور عفودورگزر اور اسلامی روایات اور ملی تشخص کی کئی مثالیں قائم کیںپاکستان کے ہر مشکل مرحلے میں وہ خود کو متحرک کرتے اور قومی مسائل کے حل کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اقتدار سے الگ کر کے جیل میں ڈالا اور جب بھٹو پر مشکل وقت آیا تو قومی اتحاد کے قائدین کو ایک میزپر بٹھانے کی ذمہ داری سردار عبد القیوم خان کو دی جو انہوں نے کمال صلاحیت اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ پوری کی ۔اتنی مخالفت کے باوجود سردار صاحب واحد قومی رہنما تھے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھ کر مشورہ دیا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی نہ دی جائے ،جنرل ضیاء الحق نے بھی انہیں قید و بند میں رکھا لیکن احساس ہونے پر نہ صرف رہا کیا بلکہ انہیں اپنا مرشد قرار دیا ۔میاں نواز شریف بھی انہیں اپنا مرشد کہتے رہے ہیں قومی تنازعات اور اہم ملکی فیصلوں میں ہمیشہ سردار عبد القیوم کی مشاورت بیحد اہمیت کی حامل رہی ہے۔
انہیں پاکستان میں اہم ترین منا صب اور مسلم لیگ کی سربراہی کی کئی بار پیش کشیں ہوتی رہیں لیکن سردار صاحب کا خیال تھا کہ کشمیر کا محاذ سب سے اہم ہے اگر یہ کمزور ہو گیا تو پھر سب معاملات خراب ہو سکتے ہیں ۔انہوں نے بڑے عہدوں کی بجائے آزاد کشمیر میں رہ کر نظریاتی تشخص کو ہر دور میں سنبھالا دیا اور اس میں رخنہ ڈالنے والوں کا سیاسی میدان میں علم و حکمت سے مقابلہ جاری رکھا ۔سعودی عرب کے فرما ںروا شاہ فیصل شہید نے انہیں60کی دہائی میں رابطتہ العالم الاسلامی کا تاسیسی رکن نامزد کیا ۔جس کے ذریعے سردار صاحب نے امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو بڑھانے اور مخاصمت و مخالفت کے رحجانات کو بطریق احسن سلجھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔وہ شائد واحد قومی سیاستدان تھے جنہیں دنیا بھر کے اہم پالیسی ساز اداروں ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کی عالمی تنظیموں کی انٹر نیشنل کانفرنسز میں شرکت کرنے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے کئی مواقع ملے ۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سردار عبد القیوم خان نے تین دہائیوں میں کوئی لاپروائی اور کوتاہی نہیںبلکہ اس مسئلہ کے پرامن حل کے لئے انہوں نے کئی زبانوں میں لٹریچر تیار کیا ۔سینکڑوں تقاریر کیں ۔لیکچر دیئے اور قومی و عالمی اخبارات و جرائد میں مضامین لکھے ۔انکی چالیس سے زائد کتب اسکی گواہ ہیں جو اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہوئیں ۔
Sardar Mohammad Abdul Qayum Khan
ان کی آخری کتاب ”فتنہ انکار سنت” تین ضخیم جلدوں میں ہے جس کو انہوں نے تیس سال کی تحقیق و جستجو کے بعد مکمل کی ہے جو ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔ راقم کو سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ 1985-89میں بطور پبلک ریلیشنز آفیسر 1992-96بطور پریس سیکرٹری اور 18 سال انکی پارٹی مسلم کانفرنس کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات چیئرمین انسانی حقوق ونگ چیف کوآڈینٹر یورپ اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدوں پر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ چار سال مسلم کانفرنس نارتھ امریکہ کا جنرل سیکرٹری بھی رہا ۔ سردار عبدالقیوم اور انکے بیٹے سردار عتیق احمد خان کے ساتھ راقم کو تیس سال اہم عہدوں پر کام کرنے اور قابل اعتماد ساتھی ہونے کا موقع ملا ۔ میں نے سردار صاحب کی صحبت اور شخصیت سے بہت کچھ سیکھا ۔ تاأنکہ گذشتہ سال سردار عتیق سے اصولی اختلافات کی وجہ سے مسلم کانفرنس چھوڑ دی ۔ وہ ایک کہنہ مشق ، اتالیق ، مشفق محسن ، باکمال انسان اور انتہائی ہمدرد اور مونس سیاستدان تھے ۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سردار عبدالقیوم ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے ۔ انکے ساتھ کام کر کے ایمان کو تازگی ملتی تھی اور ذہن و دل کے کئی بند خلیے کھلتے تھے ۔ انکی غذا بے حد سادہ ، عادات بہت معتدل اور مزاج سخت لیکن اس میں سچائی کا پہلو نمایاں تھا ۔ وہ جب مشکل میں ہوتے تو چلہ کشی کر کے اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے ۔ وہ ایک زیرک خداترس ، نرم دل ، گفتگو اور گرم دل جستجو کے دھنی تھے ۔ انتقام انکی سیاست میں قطعی نہیں تھا بلکہ معاف کرنے کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا ۔ مطالعہ کا بے پناہ ذوق اور اپنے مخالفین و موافقین کے مشکل کام کرنے پر خوش ہوتے تھے ۔ زیادہ کتب انہوں نے دوران سفر لکھی ہیں جن میں اشفاق ہاشمی اور راقم معاونت کرتے رہے ہیں۔
اسلام پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کرتے ۔ روحانیت اور دینی سوچ انکی اہم پہچان تھی ۔ تخلیق ذہن کے حامل تھے ۔ نئی تاویلیں اور باوقار ، بیحد ذود اثر تقریر کرتے ۔ اردو ، انگریزی ، عربی ، فارسی اور کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے ۔ سردار عبدالقیوم خان بلاشبہ ایک لیجنڈ اورر صدیوں کے بیٹے تھے ۔ ان جیسی صلاحیت ، حکمت ، علمیت اور حسن سلو ک ، خلوص ، ایثار اور ہمدردی رکھنے والا شاید ہی کوئی سیاستدان پیدا ہو وہ بہت بڑی اور ہم جہت شخصیت تھے ۔ انکی وفات سے قومی سیاست علم ، عمل ، تقوی اور درگزر جیسی قیمتی اور اہم خوبیوں سے خالی ہو گئی ۔راقم نے 1995میں تھینک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ (انسپاڈ ) بنائی جس کے قیام میں سردار عبدالقیوم خان کے اہم مشوروں نے بیحد مدد اور ہمت دی ۔ وہ انسپاڈ کے تاحیات سرپرست اعلی تھے اور یہ راقم کیلئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ موصوف نے 2005میں انسپاڈ کی طرف سے انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس منعقدہ میر پور میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی ۔ اس موقع پر میر پور ڈیکلریشن کے نام سے کشمیر پر اہم اعلامیہ جاری کیا۔
Leadership Conference
جس کی ساری راہنما سردار صاحب نے کی ۔ 2008میں انسپاڈ نے لیڈر شپ کانفرنس برائے مذہبی ہم آہنگی منعقد کی جس میں انسپاڈ کی طرف سے سردار صاحب کو امن ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ دیگر ایوارڈ یافتگان میں محترمہ بینظیر بھٹو ، عبدالستار ایدھی ، زاہد ملک ، پروفیسر ہوخ وان سکائی ہاک جرمنی ، ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور دیگر شامل تھے ۔ سردار صاحب نے ہر قدم پر قومی مفادات کو پیش نظر رکھا ۔وہ نہ بکنے والے ، نہ جھکنے والے لیڈر تھے ۔ سچی بات منہ پر کرتے اور جھوٹے کو برا کہنے کی بجائے اصلاح کی نصیحت کرتے ۔ سردار عبدالقیوم ساری زندگی زمین پر سوئے رہے انکا عزم تھا کہ کشمیر کی آزادی کے بعد وہ یہ ترک کرینگے ۔ آج وہ ہزاروں من مٹی تلے چلے گئے ہیں لیکن انکی زندگی ، انکی خدمات ، انکا کردار اور انکی تحریریں رہتی دنیا تک زندہ رہیں گی۔
انکے عقیدت مندانہیں مجاہد اول بھی کہتے تھے ۔ وہ ایسا شفاف ، جاندار اور درخشندہ کردار ہم میں چھوڑ کر گئے ہیں ۔ جس پر عمل پیرا ہو کر انکے جانشین فرزند سردار عبدالقیوم اور تمام طبقات اچھائی کو فروغ دے سکتے ہیں کیونکہ دوسرا سردار عبدالقیوم خان پیدا ہونا محال ہے ۔ سردار صاحب نے آزاد کشمیر میں قومی لباس شلوار قمیض اور قومی زبان اردو کو سرکاری حیثیت دی ۔ انہوں نے شرعی عدالتیں قائم کیں اور اسلامی نظام کے نفاذ کے عملی اقدامات کئے ۔ ترقیات کا محکمہ قائم کیا اور آزاد کشمیر میں تعلیمی انقلاب برپا کر دیا ۔ سردار عبدالقیوم خان کی اسلام آباد میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس قومی شخصیت کا متبادل کہاں سے آئے گا ۔ ؟ جو انکی جدوجہد اور ریافت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا لیکن اس بات کا شاید کسی کے پاس کوئی قابل عمل جواب نہیں ہے ۔ وہ ایک شخص پورے ملک کو ویران گیا۔