یہ کہاوت تو سب نے سنی ہو گی کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتااس کا مشاہدہ تو کم و بیش اکثر لوگوں کو ہوتا رہتا ہے۔ جو آج پاور فل سیاستدان ہیں۔۔ان میں بیشتربے پناہ اختیارات کا مرکزو محورہیں لیکن کل ان کا حال ایسا ہوتا ہے پھرتے ہیں میر خوار کوئی پو چھتا نہیں سیاست کے بارے میں ایک اور بات بڑی مشہور ہے کہ آج کے دوست کل کے دشمن ہوتے ہیں۔
متعدد بار دیکھا گیا ہے ایک دوسرے کے حلیف۔۔ جن کے درمیان بہت سی چیزیں، پارٹیاں اور قدریں مشترک ہوتی ہیں ان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں ، مد مقابل آکر۔۔۔ ایک دوسرے کے خلاف اتنی گھٹیا باتیں اور اس قدر گھنائونے الزام لگاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی اور یوں یہ تماشا ساری دنیا دیکھتی ہے۔۔۔
تیسری بات بڑی اہم ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف ِ آخر نہیں ہوتی ایک دوسرے کو غدار، سیکورٹی رسک اور نہ جانے کیا کیا قرار دینے والے بہن بھائی بھی بن سکتے ہیں کل تک جو لوگ جوتیوں میں دال بانٹا کرتے تھے شِیر و شکر ہو جاتے ہیں لوگ حیرت سے ان کو تکتے رہ جاتے ہیں پاکستان میں جب سے نظریاتی سیاست دم توڑنے لگی ہے اور مفاہمتی سیاست کاآغاز ہوا ہے بیشتر سیاستدانوں کا کام آسان ہو گیا ہے۔
موجودہ سیاست میں ایک اور ستم ظریفی پروان چڑھ رہی ہے کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کیلئے نظریات، وفاداری اور جماعتوں سے ادھر ادھر جانا فیشن بنا لیا تھا لیکن پھر بھی شرفاء ، اچھے کردار کے حامل سیاستدان اوراعلیٰ اقدار کے حامی اسے برا سمجھتے تھے کچھ اب بھی برا خیال کرتے ہیں شاید ان کے خیال میں سیاست میں قربانی دینا پڑتی ہے۔
یقینا سیاست میں قربانیاں اعلیٰ ظرف کے لوگ ہی دیتے ہیں کہ اچھے بروں میں یہی امتیاز کا ایک معیار ہے۔۔یہ ساری کی ساری باتیں اور کہاوتیں اس وقت شدت سے یاد آئیں جب لوگ مسلم کانفرنس کے صدر سردارعتیق کے تازہ ترین خیالات سے مستفید ہوئے جن میں انہوں نے فرمایا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ان کی سیاست الگ الگ ، مفادات ایک ہیں فوج کے دفاع کیلئے پرویز مشرف کی حمایت کااعلان کرتا ہوں۔
سردارعتیق ۔۔ آزادکشمیر کے مجاہد ِ اول سردار عبدالقیوم کے فرزند ِ ارجمند ہیں کشمیرکے لئے ان کی خدمات، نظریات اور قربانیاں قابل ِ تحسین سمجھی جاتی ہیں اسی حوالے سے ان کا احترام بدترین مخالف بھی کرتے ہیں لیکن نہ جانے کچھ عرصہ سے سردار عتیق کو کیا ہو گیا ہے وہ کبھی” صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں” کی تفسیر بن جاتے ہیں اور کبھی لگی لپٹی بغیر سیدھی سیدھی باتیں کرکے دل کا غبار نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو ان جیسے سنجیدہ سیاستدان کی شخصیت سے تال میل نہیں ر کھتا۔۔۔۔
ان کی جماعت مسلم کانفرنس کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ جب سے میاں نواز شریف سیاست میں آئے ہیں سردار عبدالقیوم کے ان سے گہرے روابط ہیں۔ اس اعتبارسے وہ ان کے ہم خیال اور فطری حلیف سمجھے جاتے تھے اس بات کا مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم کو بہت فائدہ ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپنی حریف جماعت پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ان کو بہت پرموٹ کیا اور اس طرح آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کا طوطی بولنے لگا اسی وجہ سے سردار عبدالقیوم مسلم لیگی ہم خیال اور پیپلز پارٹی کے تمام مخالفین کے مرکزو محور بن گئے اور یوں متعدد بار سردار عبدالقیوم اور ان کے فرزند ِ ارجمند سردار عتیق آزادکشمیر کے وزیر ِ اعظم بنے۔۔
Nawaz Sharif
میاں نواز شریف تو سردار عبدالقیوم کو سیاسی مرشد قرار دیتے رہے ان کے درمیان تعلقات میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ کہا جاتا ہے معاملات پر سردار عتیق کی گرفت مضبوط ہوگئی ان کا میاں نواز شریف سے اتنا قلبی تعلق نہیں تھا جتنا ان کے والد کا تھا پھر سردار عبدالقیوم اپنی پیران ِ سالی کی وجہ سے عملاً اپنے صاحبزادے پر زیادہ بھروسہ کرنے لگ گئے۔۔ مسلم کانفرنس کے رہنمائوں نے آزادکشمیر میں اپنی حکومت بنانے کیلئے میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین کے ساتھ” مفاہمتی سیاست”کا آغاز کیا جس سے جلاوطن رہنمائوں کو شاک لگا۔۔
میاں نواز شریف نے اسی دن تہیہ کر لیا تھا سردار فیملی پرتکیہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اب آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن انتخابی سیاست کریگی جب آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن نے عملی سیاست کاآغاز کیا منظر نامہ یکسر تبدیل ہو گیااینٹی پیپلزپارٹی دھڑے ، سیاستدان اور گروپ تقسیم در تقسیم ہو گئے اور آزادکشمیر کی سیاست چی۔۔چوں ۔۔چاں کا مربہ بن کر رہ گئی اس کا رزلٹ یہ نکلامیاں نوازشریف اور سردار فیملی کے درمیان ”ٹٹ گئی تڑک کر کے۔۔۔اب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن ایک الگ قوت ہے اور مسلم کانفرنس الگ قوت۔۔۔ان سارے معاملات میں سب سے بڑا نقصان مسلم کانفرنس اور اس سے زیادہ سردار عتیق کا ہوا اب آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن کا شمار ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر ہوتا ہے جس کے صدر فاروق حیدر جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جو اینی کامیاب حکمت ِ عملی کے تحت خود کو وزیر ِ اعظم آزادکشمیر بنانے کی حدتک کامیاب رہے وہ میاں نواز شریف کے انتہائی قریب بھی ہیںاور آزادکشمیر کے موجودہ سیاسی بحران میں ایک فریق بھی۔۔۔مسلم کانفرنس اس سیاسی صورت ِ حال میں سب سے زیادہ بے چین ہے اسے کچھ سجائی نہیں دے رہا شاید اسی بناء پرسردار عتیق نے وہ بات کہہ ڈالی جو انہیں کہنی چاہیے تھی انہوںنے فرمایا ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ان کی سیاست الگ الگ ،مفادات ایک ہیںفوج کے دفاع کیلئے پرویز مشرف کی حمایت کااعلان کرتا ہو ں ”اس بیان کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں سے مایوس لوگ ایک بار پھر ان کے گرد اکھٹے ہو جائیں دوسرا یہ کہ انہیں پاکستان کی عسکری قوتوںکی حمایت حاصل ہو جائے۔۔۔ لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ پرویز مشرف آج کل خود حالات کے رحم وکرم پرہیں اوراس سے اہم یہ بات ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے۔۔۔فقط پرویز مشرف کا نام فوج نہیں ہے ایسے بیانات سے انہیں تازہ آکسیجن نہیں مل سکتی آج سیاسی حالات اور قومی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو رہے ہیں گلے شکوے، شکائتیں، طعنے کمزور لوگوں کے ہتھیارہیں۔۔۔ سیاستدانوں کو ڈکٹیٹروں کی حمایت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے، سستی شہرت، فوجی چھتری کی پناہ یا حمایت کی خواہش اب قوم کے دل کو یہ بات پسندنہیں آتی۔۔ کیا فرض کر لیا جائے ؟ایسا کرنے والے اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو گئے ہیں حالانکہ اپنے مخالفین کو فیس Face کرنا، انہیں ٹف ٹائم دینا اور جھپٹنا ، پلٹنا۔ پلٹ کر جھپٹناہی اصل سیاست ہے آج کے دورمیں جو سیاستدان ایسا نہیں کرتا OUT ہو جاتا ہے پیشگی ایک پیش گوئی یہ بھی ہے آزادکشمیر کے صدر چوہدری عبدالمجید کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد آئے۔۔۔نہ آئے۔۔۔ کامیاب ہویا ناکام سردار عتیق کو کچھ فائدہ نہیں ہونے والا۔
کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے وہی بتوں کی شکایت، وہی گلہ دل کا