تحریر : ممتاز ملک. پیرس نام نہاد دربار عالیہ پر جہالت اور شرک کی اخیردو نمبر بدکار گدی نشیں کا بیان کہ “اس نے یہ قتل کر کے انہیں جنت میں بھیجا ہے .”..کیا سمجھاتا ہے ہمیں کہ دنیا میں دین پھیلانا چھوڑو اور سب سے پہلے اپنے ملک اور دیہاتوں میں اور اپنے نام نہاد مسلمانوں دین پھیلاو . انہیں بتاو کہ اللہ ایک ہے او اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے آخری رسول تھے ہیں اور رہینگے . اور وہ اللہ کے سوا کسے کے آگے سجدہ نہیں کرتے تھے . اور ایسے اڈے بنا کر انہوں نے کوئی بیٹے بیٹیاں اور پجاری نہیں بنائے .تو جو ایسا کرتا ہے وہ مسلمان نہیں مشرک ہے . یا وہ یہ شرک چھوڑ دے یا وہ اپنے مذہب کے خانے سے اسلام ہٹا کر باقاعدہ مشرک لکھوائے. تاکہ ہمیں مسلمانوں کے نام سے تو دنیا میں رسوا نہ ہونا پڑے ..واقعی بقول اس قاتل گدی باز کے یہ سبھی اس کے بیٹے بیٹیاں تھے ..آخر مشرکین ایک دوسرے کا خاندان ہی تو ہوتے ہیں.
بات ہے مقتولین کی تو جو لوگ خود یہاں اپنی عزتیں نیلام کرنے آئے تھے ان سے آپ کیا ہمدردری کر سکتے ہی اور کیوں کریں ہمدردی؟؟؟کیا وہ سب یہاں پر اغوا ہو کر آئے تھے ؟یا جبرا رکھے گئے تھے ؟جو غیرت مند مرد یہاں اس وقت موجود تھے وہ رات کے ڈیڑھ بجے عورتیں اور بچے لیکر کون سا چن چڑھانے آئے تھے. بھنگ اور چرس کے نشے میں ..عدالت کو فورا یہ نام نہاد دربار ( جو شرک اور بدکاری کے اڈے ہیں ) ڈھانے کا حکم دینا چاہیئے اور رکاوٹ ڈالنے والوں کو گولی مار دینے کا حکم دیں .. اور اس درباری اس اڈے کو چلانے والے اور شرک کی ترویج کرنے والے کو اسی گاوں کے چوک میں پھانسی دی جائے اور کئے دن تک لٹکا رہے تاکہ آئندہ سب کے لیئے عبرت رہے.
ہمارے ہاں ان خرافات کا آغاز ہمارے ملا حضرات سے ہوتا یے جو بچوں کو قران پاک پڑھانے کے بہانے ان کے ذہنوں میں نت نئے فرقوں کا اور فتنوں کا بیج بوتے ہیں . چار دن جو ان کے پاس نماز پڑھنے چلا جائے وہ گھر آ کر خود کو جنتی اور دوسرے تمام گھر والوں اور ماں بہنوں کو سب سے پہلے جہنمی خیال کرنے کے خبط میں مبتلا ہوجائے گا . اسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہمیں اللہ کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے نہ کہ دوسروں کے .یہ کون لوگ ہیں جو ملاوں کے بھید میں چھپے ہیں ؟جو حقوق العباد جیسے.ناقابل معافی فریضہ پر کبھی کوئی خطبہ یا درس اور تبلیغ نہیں کرتے ….. لیکن جن نوافل اور حلیوں کا قرآن پاک میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ان پر چیخ چیخ کر بے حال ہوئے جارہے ہیں.
سوال یہ ہیں کہ آخر ہر ملا رجسٹرڈ ہے کیا ؟ وہ کہاں سے کتنا تعلیم یافتہ اور کتنا متقی ہے کوئی جانتا ہے ؟ کیا وہ اسی علاقے کا رہنے والا ہے؟ کیا لوگ اس کے کردار کے گواہ ہیں ؟ ہمارے پڑھے لکھے بڑی بڑی یونیورسیٹیوں سے داغ التحصیل قابل افراد کو امامت اور مولوی کے فرائض کیوں تفویض نہیں کیئے جاتے ؟ کیا ہر علاقے میں کوئی ایسا لیٹر بکس یا نیٹ کیفے یا ای میل ایڈریس ہے جہاں بنام سرکار کوئی بھی کسی وقت بے نام شکایت ایسی کسی واردات سے پہلے ہی بھیج کر آگاہ کر سکے.
کیا قبرستانوں میں داخلے اور اخراج کا کوئی وقت مقرر ہے ؟کیا قبرستانوں کے گرد باونڈریز موجود ہیں ؟ اگر قبرستان بھی نہیں سنبھالے جاتے تو آئیے یورپ امریکہ میں دیکھیئے اور سیکھیئے کہ قبرستان کیسے ارینج کیئے جاتے ہیں ؟ ہر حکومت پاکستان کے لیئے فکر کا مقام ہے کہ کوئی بھی” ماڑا تاڑا” آٹھ کر کسی کوبھی دفنا کر اس پر جھنڈا گاڑ کر اسے پوجا پاٹ اور بدکاری کا اڈا بنا سکتا ہے بس اس کا نام” دربار عالیہ” ہونا چاہیئے.
کیا یہ ہمارے خلاف کوئی مذموم سازش ہے ؟ اگر ہاں…. تو اس کا سدباب کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر نہیں …تو اس پر گرینڈ آپریشن فوری کیا جائے ….