تحریر : راؤ خلیل احمد سرگودھا شہر سے محض پانچ سے چھ کلو میٹر شمال کی جان ایک گاؤں چک 95 شمالی میں واقع ایک درگاہ دربار مستی سرکار چوہدری علی محمد قلندر میں مزار کے متولی عبدالوحید نے 20 افراد کو قتل اور پانچ کو شدید زخمی کر دیا۔ قتل ہونے والوں میں مزار والے کا سگا بیٹا آصف بھی شامل ہے جو اسلام آباد میں پولیس میں ہی ملازم تھا۔ مرنے والوں 20 افراد میں 17 مرد اور 3 خواتین شامل ہیں اور ان میں سے 6 کا تعلق 95 شمالی سے ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق 5 افرد شدید زخمی ہیں۔ 95 شمالی کے رہاشی پاکستان عوامی تحریک فرانس کے جنرل سیکرٹری طاہر عباس گورائیہ نے اس واقعہ پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
قاتل عبدالوحید کا تعلق ننکانہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 20 سے ہے اور 55 بچوں کا باپ اور الیکشن کمیشن کا سابق افیسر ہے۔ پولیس تفتیش کے مطابق عبدالوحید نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقتولین میرے پیر چوہدری علی محمد قلندر کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی سازش میں ملوث تھے۔ اور وہ اسے بھی زہر دینے کی سازش کر رہے تھے تھے ان میں سابق پیر کا بیٹا مقتول محمد آصف بھی شامل ہے۔
دیکھنے میں یہ واقع دربار پر کنٹرول کی جنگ کا شاخسانہ لگتا ہے ۔ سب کو جرگے کے لیے بلایا گیا پہلے نشہ آور شربت پلایا گیا اور پھر انتہائی سفاکی سے ہتھوڑے اور خنجر سے ان کو قتل کیا گیا۔ کچھ بھی ہو جہالت کی ایک علیٰ مثال قائم ہوئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق متولی بھی زہنی طور پر کھسکا ہوا لگتا ہے۔ کچھ بھی ہو 20 افراد کی جانیں گئیںاگر کہا جائے کہ ایک فاسق نے 20 معصوموں کی جان لی تو غلط نہیں اور اگر کہا جائے کہ 200 افراد جہالت کی نظر ہوئے تو بھی ٹھیک ہے۔
کچھ بھی ہو پاکستان میں جاری جعلی پیری مریدی اور اس سے آسان آمدنی نے روحانیت کے متلاشی معصوم لوگوں کی دنیا و آخرت کی زندگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جو دن بدن بڑا ہو رہا ہے۔ چند سال پہلے مرحوم پیر نصیر الدین نصیر کی ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملی جس میں مرحوم پیر صاحب نے بڑے واضع الفاظ میں اپنے اور اپنے جیسوں کو تمبع کرتے ہو کہا تھا کہ یہ سب غلط ہے ایسی پریکٹس سے باز آنا چاہیے۔ ہم سب آپ ہی کی طرح کے انسان ہیں مزاروں کو کارو بار مت بناو۔ گاؤں میں دربارروں کے گدی نشینی یا متولی کا عہدہ انتہائی پر کشش ہوتا ہے۔ لوگ عموماٌ اپنے پیر کے احکامات اور باتوں کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔گاؤں کے ایسے درباروں پر لوگ اپنے مالی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے منتیں ماننے آتے ہیں۔ سالانہ عرس اور میلوں میں مریدین کی طرف سے اپنے پیر یا روحانی پیشوا کی خدمت میں نقد رقوم اور دیگر اجناس کی شکل میں چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔
ان چڑھاوں کی وصولی کے لیے پیر صاحبان کی فیملی اپنی اولادوں کو باقائدہ ٹرینگ بھی دلواتے ہیں میں زاتی طور پر ایک پروان چڑھتی گدی کو دیکھ رہا ہوں زیادہ تفسیل میں تو نہیں جاؤنگا خلافت کے حصول کی جنگ تو ابھی نہیں چھڑی مزار سے ملحقہ کسی بھی جگہ کو مزار کا حصہ بنانے کی تگ ودو میں شریعت کے احکامات کو بھی پامال کیا جارہا ہے۔ ابھی پیچھلے عرس پر 600 چادورں کا چڑھاوا چڑھا جن کی ایورج قیمت 2000 روپے فی چادر تھی ان کو بعد میں 1700 روپئے فی چادر دوکاندار کو واپس لوٹا دی گئیں، دس لاکھ سے زائد رقم اکھٹی ہوئی،2 ڈرم تیل کتنے کا بکا اور نقد رقم کی انفارمیشن خاندان سادات کے پاس ہی رہی۔ ناکوئی آڈٹ کا جھنجٹ نا کوئی قانون کا پنگا جہالت زندہ باد۔ پنجاب میں ہر 200 کلومیٹر پر پنجابی زبان کا لہجہ بدلتا رہتا ہے مگر ایک چیز جو ہر جگہ مشترک ہے وہ یہاں کے لوگوں کی درباروں، درگاہوں اور صوفیا سے عقیدت ہے۔ اور عقیدت کی حد اس نئے واقعہ سے دیکھ لیں کہ 20 افراد کے قتل کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج ہوا ہے اس کے سارے عقیدت مند یہ سمجھ رہے ہیں کہ مرنے والے امر ہو گئے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔
پیر نے جو کیا ٹھیک کیا ہے۔’ یہ ایک بہت بڑا لمحہء فکریہ ہے ان کے لیے نہیں جو مسلکن اس پیری مریدی کو نہیں مانتے بلکہ یہ ان کے لیے جو روحانیت کے قائل ہیں جو صوفیا کرام کو مانتے ہیں ان کی کرامات کا بھی اقرار کرتے ہیں ۔ ان کی دین کے لیے کی گئی خدمات کو بھی مانتے ہیں ۔ پر ڈھونگیوں کے قلع قمہ کی کوئی تدبیر کرنے سے ڈرتے ہیں ،ڈرنا بھی چاہیے جہاں 21ویں صدی میں آج 20 مقتولین کا وارث نہیں بنتا اور سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوتا ہےاور ماڈل ٹاون کے 14 شہیدوں کے وارث سرکار سے انصاف کے لیے ممکنہ انسانی کوشش کی آخری حد تک جانے کے باوجود انصاف سے میلوں دور ہوں۔
اس بار پاکستان کے ٹوور پے اپنی ایک نہایت ہی اچھی بزگ جو کہ ایک پیڈ ٹی وی پروگرام سے متاثر ہوئیں اور طب نبوی کی افادیت بیان کرتے ہوئے ، جس سے کسی بھی مسلم کو انکار نہیں، ایلو پیتھی میڈیسن کو فرنگییوں کی سازش کرار دیتے ہوئے مجھے بھی فرنگیوں کا سپوٹر کرار دے دیا ۔اس سے پہلے کہ ان کی سادگی کے باعث مجھے پرلادینت کا لیبل لگ جاتا میں معافی مانگ کر یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ میں فرنگیوں کا بیٹا نہیں آپ ہی کا بیٹا ہو۔ لیکن ایک بات فرنگیوں نے بہت اچھی کر دی ہے DNA ٹیسٹ کے زریعے شناخت جس سے آپ کسی کی بھی اصلییت جانچ سکتے ہو میرا خیال ہے نام نہاد سیدوں کی شناخت تو ہو ہی جانی چاہئے ۔ جو سید کچھ اس طرح کے ہیں۔
پہلاں سی اسی ج جولاہے پھر ہو گئے اسی درزی ہولی ہولی سید ہو گئے آ گے ،رب ، دی مرضی
اس سے پاکستان میں 900فیصد سے زائد روحانیت کے نام پر انسانیت کی تزلیل کرنے والوں کا قلع قمہ کیا جا سکتا ہے ،اور حقیقی روحانیت کی بقاء کے لیے یہ عمل انتہائی ضروری ہے۔ اسی عمل سے ہم داتا صاحب ، لال شہباز قلندر ، پیر مہر علی اور اجمیر شریف جیسی ہستیوں پر پڑتی دھول کو صاف کر سکتے ہیں۔ اور 95 شمالی جیسے افسوس ناک واقعہ کی روک تھام کر سکتے ہیں۔