پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2010 میں سٹر یٹجک مذاکرات کا آغاز ہوا تھا تاہم 2011 میں اسامہ بن لادن کی خفیہ کارروائی میں مارے جانے سمیت کئی واقعات دونوں ممالک میں تلخی کا سبب بنے اور یہ مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوئے۔ پاکستان نے سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی ہیلی کاپٹرز کے حملے میں چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے تیل اور دوسری رسد کی فراہمی روک دی تھی۔ اس کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں امریکہ کے زیر استعمال شمسی ائر بیس کو خالی کرایا گیا تھا۔ گذشتہ برس اگست میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے ہمراہ مذاکرات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے اور پاکستان امریکی مارکیٹوں تک بہتر رسائی اور پاکستان میں براہِ راست امریکی سرمایہ کاری بھی چاہتا ہے۔
ایک روز قبل ہی پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اس بات کی تصدیق کی ہے امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت کے لیے 35 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی منظوری دی ہے۔ تاہم اس سے قبل امریکی کانگریس نے نئے مالی سال کے لیے بجٹ کے مسودے میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے دی جانے والی رقم کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا تھا۔ امریکی شرائط کے تحت امریکی وزرائے خارجہ و دفاع کو امریکی کانگریس کو یہ بتانا ہو گا کہ پاکستان القاعدہ، تحریِک طالبان پاکستان، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوری کے خلاف کارروائی میں کیا مدد کر رہا ہے۔ انھیں کانگریس کو یہ یقین بھی دلانا ہوگا کہ پاکستان اپنی سر زمین سے امریکی یا افغان فوج پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہا ہے۔ قومی سلامتی وخارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک مذاکرات واشنگٹن میں شروع ہو رہے ہیں۔
Sartaj Aziz
سرتاج عزیز مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ کیلئے روڈ میپ کو حتمی شکل دی جائے گی۔ توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان وزارتی سطح کے مذاکرات میں ورکنگ گروپس کی پیش رفت کاجائزہ لیا جائے گا۔ دفاع، توانائی، معیشت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسداد دہشت گردی سمیت دوطرفہ تعاون کے مختلف شعبوں میں شرکت داری کیلئے تجاویز اور مواقعوں پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس موقعے کو تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے سمیت اقتصادی ترقی کیلئے ترجیحات کو اجاگر کر نے کیلئے بروئے کار لائے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے اور پاکستان امریکی مارکیٹوں تک بہتر رسائی اور پاکستان میں براہِ راست امریکی سرمایہ کاری بھی چاہتا ہے جبکہ امریکی اہلکار کے مطابق امریکہ کی کوشش ہوگی کہ مذاکرات میں سلامتی اور اقتصادیات پر بات کی جائے اور مستقبل کے تعلقات کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ اس ملاقات اور سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کیلئے مشیر خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف امریکہ پہنچ چکے ہیں جہاں اعلیٰ حکام اور سفارتخانہ کے اہلکاروں نے ان کا خیر مقدم کیا۔
سٹرٹیجک مذاکرات میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہونی والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا اور دو طرفہ تعاون کے معاملات میں شراکت داری بڑھانے کے مواقع کی نشاندہی کی جائے گی۔ امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن اور انسانی حقوق کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز 32 ملین ڈالر امداد کے بدلے سی آئی اے ایجنٹ شکیل آفریدی کی رہائی کی ڈیل کرنے امریکہ گئے ہیں۔ سٹرٹیجک ڈائیلاگ محض شوشہ ہے، اگر شکیل آفریدی کو رہا کرنا مجبوری ہے تو اسے امداد کی بجائے عافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کیا جائے۔ انہوں نے کہا لگتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کے معاملے پر بھی حکمرانوں کے تمام بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود امریکی حکام کے ساتھ خفیہ سازباز جاری ہے۔ انہیں امریکہ میں موجود ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ سرتاج عزیز اور امریکی حکام کے 27 جنوری کو شروع ہونیوالے مذاکرات میں شکیل آفریدی کی رہائی کا معاملہ مذاکراتی ایجنڈے کا حصہ ہے، اگر چند ڈالروں کے عوض ریاستی ملزم کو رہا۔
Shakeel Afridi
یا امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تو یہ قومی غیرت کا سودا ہوگا جسے غیر تمند پاکستانی کبھی قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر شکیل آفریدی کی رہائی نہ ہونے سے کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہے تو حکمران کم از کم اسے عافیہ کی رہائی سے تو مشروط کریں وہ تو امریکی جیل میں پڑی سڑ رہی ہیں اور امریکہ ڈھٹائی سے اپنے ایجنٹوں کو پاکستان سے چھڑا کر لے جا رہا ہے۔ پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے دوران حکومتی نمائندے انہیں جھانسہ دے رہے ہیں کہ یورپی یونین ممالک کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کے تحت عافیہ کو چھڑایا جائے گا لیکن انکی یورپی وکلاء سے مشاورت کے بعد پتہ چلا ہے کہ یہ محض جھانسہ ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے گزشتہ برس اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ امریکا میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ہم ہی وطن واپس لائیں گے۔ وزیراعظم نے کراچی میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور گھر کے دیگر اہلخانہ سے ملاقات کی اور کہاکہ حکومت امریکا میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کیلئے بہت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔
میاں نواز شریف ،مریم نواز نے عافیہ صدیقی کے اہلخانہ کواس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ 2014ء کا سورج ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان دیکھیں گی۔ مگر انکی حکومت کو 7 ماہ ہو گئے میاں نواز شریف اور مریم نواز سے جب بھی رابطہ کیا گیا ہر دفعہ نفی میں جواب ملا۔ مشرف نے ڈاکٹر عافیہ کو ایک بار امریکہ کے آگے بیچا تھا مگر جمہوری حکومتوں نے انکو بار بار بیچا۔ ریمنڈ ڈیوس دن کے اجالے میں دو پاکستانیوں کو سر عام قتل کرتا ہے۔ امریکہ اسکو باآسانی واپس لے گیا۔ حکومت کچھ نہ کر سکی۔ امریکہ میں موجود پاکستان ایمبیسی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو مذاکرات میں عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات بھی کرنی چاہئے اور رہائی کو یقینی بنانا چاہئے۔ اگر امریکہ پاکستان کو دی جانے والی امداد شکیل آفریدی کے ساتھ مشروچ کر سکتا ہے
پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، حکومت امریکہ پر واضح کرے کہ جب تک پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا نہیں کیا جاتا تب تک پاکستان امریکہ کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرے گا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی تو بے گناہ ہے جبکہ اسکے مقابلہ میں شکیل آفریدی تو پاکستان کا غدار ہے، بے گناہ کو آزاد ہونا چاہئے۔ وزیر اعظم نواز شریف بھی عافیہ کے اہلخانہ کے ساتھ کئے گئے وعدے کو پورا کریں تا کہ قوم کا ان پر اعتماد بحال ہو۔