تحریر: محمد امین بلوچ سب تحصیل سارونہ میں مقیم دو دوست کافی عرصے سے اسرار کررہے تھے کہ ان کے پاس ہوکر آئیں۔ دل بھی وہاں جانے کو چاہ رہا تھا ۔ بالآخر پروگرام بناکر ایک دوست کے ہمراہ ان کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ حب سے دریجی روڈ پرسفر کرتے ہوئے سارونہ کُل 178 کلومیٹر کافاصلہ طے کرکے سارونہ تھانہ(بازار) پہنچ گئے۔
سارونہ تحصیل وڈھ ضلع خضدار پسماندہ کا سب تحصیل ہے۔ اس کی سرحدیں جنوب مشرقی طرف سے دریجی لسبیلہ، جنوب مغرب سے شاہ نورانی،شمال مشرق سے صوبہ سندھ کو اور شمال مغرب سے سب تحصیل آڑنجی سے ملے ہوئے ہیں۔ کافی پہاڑی اور میدانی علاقہ پر پھیلا ہوا ہے یہاں پر شاہیزئی ،میرحاجی،شہول، محمد حسنی،رئیسانی، جمالی،لانگواوربھوتانی سمیت دیگر قبائل و اقوام رہائش پذیراور آباد ہیں۔یہاں کے تما م لوگوں کا ایک خاص یکساں ذریعہ معاش کا پیشہ نہیں ۔یہاں لوگ کاشتکاری،اورمائیننگ سے کسی حد تک وابسطہ ہیں سارونہ امن و امان کے صورتحال کے حوالے سے کافی پُر امن علاقہ ہے پرُامنی بھی یہاں کے پرامن عوام کی وجہ سے قائم ہے سارونہ میں بھی دوسرے انٹیریر بلوچستان کی طرح پسماندگی کے آثار نمایاں طورپر نظر آتے ہیں۔ کاشتکاری کا 80%حصہ بارانی ہے ۔ اگر بارشیں نہ ہوں تو کاشتکاری کا نظام بھی رُک جاتا ہے۔ 20%لوگوں نے کاشتکاری کیلئے دیگر ذرائع استعمال کررہے ہیںبنیادی سہولیا ت کی کافی حد تک فقدان ہے ان میں سے کچھ چیدہ چیدہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہیں۔
سڑک و ذرائع آمد و رفت:۔ اگر حب سے دریجی سڑک کوسفر کیلئے استعمال میں لایا جائے تو دریجی سے 22کلومیٹر آگے دیوانہ شاہ تک پکی سڑک ہے اس کے بعد آری پیر کراس سے سارونہ شہر تک کچا راستہ ہے جو پہاڑی سلسلے سے مائیننگ کیلئے بنائے گئے ہیںاور اس پر ٹرکوں کا آمدورفت رہتی ہے ۔ اس راستے پر سفر کرتے ہوئے آری پیر ایریا اور اس کے دامن میں پہاڑوں پر مائینز ہی مائنز ہیں اور بھر ضلع لسبیلہ کا اختتامی حد جس کو ٹوکن کہا جاتا ہے واقع ہے ۔ ٹوکن سے لسبیلہ کی حدود ختم ہوکر خضدار کاانتظامی حد ودشروع ہوتا ہے اس پوائنٹ کو ٹوکن شاید اس لیئے کہا جاتا ہے کہ وہاں پر پتھر لے جانے والے گاڑیوں کے یونین کے لوگ بیٹھے ہیںاور ان سے وہاں پر مائینز کے بارے میں یا لیزز کے بارے میں کوئی پرچی لی جاتی ہے۔ آگے سفر کرتے ہوئے گَڈڑوکاپہاڑ ی سلسلہ آتا ہے جس میں ہر طرف مائینز ہی مائینز دکھائی دیتے ہیں۔یہ راستے کچا ہونے کے ساتھ ساتھ کافی دشوار گزار بھی ہے۔موٹر سائیکل اور گاڑی دونوںپر اوسطََ20کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے زائد پر سفر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ علاقے کی مٹی کافی چکنی ہونے کی وجہ سے شاید بارشوں میں سفر کرنا مشکل ہو۔ علاقے میں ایک یہی راستہ اور دوسرا شاہ نورانی کی طرف سے ہے وہ بھی کچا ہے ۔ تیسرا روٹ تحصیل وڈھ آڑنجی کی طرف سے ہے جوکہ مکمل کچا ہے ۔ایک بس علاقے سے خضدار کی طرف چلتی ہے جو مختلف مقامات قصوری،کلغلو ، خوبینٹ ،زگر کوہن ، اوجھاتو، لسو ، اور کنجڑ کی طرف سے ہوتی ہوئی خضدار کو جاتی ہے۔ دو بسیںکراچی کی طرف سے چلتی ہیں ۔ ان بسوں میں کچے سڑکوں اور دشوارگزاری کی وجہ سے مسافروں کو کافی تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔اگر کراچی سے کوئی بس شام کو نکلے تو پوری رات سفر میں بیت جاتی ہے۔ علاقے میں سڑکوں کی اشد ضرورت ہے۔
Govt High School Saroona
تعلیم:۔ تعلیمی حوالے سے اگر سارونہ کو پرکھا جائے تو کوئی خاطر خواہ تسلی نہیں ملتی علاقے میں پرائمری سطح کے کئی اسکولز ہیں مگر ان کی کارکردگی صفر کے برابر ہے ان پرائمری سکولوں سے ہائی سکول اسٹاف کے مطابق سال میں پانچویں کا کوئی ایک طالب علم بھی ہائی سکول سارونہ میں نہیں پہنچ پاتے جس کی ثبوت گورنمنٹ ہائی سکول سارونہ کے مڈل سیکشن نے خود دی جتنے بھی طلباء ہائی سکول کے مڈل سیکشن میں پڑھتے ہیں سب کے سب اسی ہائی سکول کے پیداوار ہیں فیڈنگ سکول پرائمری ہوتے ہیں ان کی طرف سے ہائی سکول مکمل طورپر ناامید ہے اگر گورنمنٹ ہائی سکول سارونہ اور اس کے کرداراور سابقہ تاریخ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے تو 2013تک ہائی سکول سارونہ کا تعلیمی حوالے سے کچھ خاص ریکارڈ نہیں رہا ہے 2014سے اب تک اسکول میں طلباء کی تعداد میں 87.5%اضافہ ہوا ہے جس کا تمام تر سہرا علاقے کے لوگ اسکول اسٹاف کی ان تھک محنت کو دیتے ہیں لیکن ہائی سکول سارونہ سرکاری سکول ہونے کی وجہ سے علاقائی لوگوں کی تعلیمی ترجیحات میں عملی طور شامل نظر نہیں آرہے جو وہاں کے لوگوں کے ترجیحات میں ہونا چاہئے تھا صرف کسی سرکاری آفیسر کے دورے کے موقع پر بے مقصد شکاتوں کا انبار لگانے آتے ہیں۔ اسکول کی عمارت کسی بھی زاویے سے ایک ہائی سکول کا منظر پیش نہیں کرتاہائی سکول کُل 7 کمروں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک ہیڈماسٹر کا دفتر بھی ہے اور تین کمرے پرائمری سیکشن کے 6 جماعتوں کیلئے جبکہ تین کمرے مڈل اور ہائی سیکشن کے 5 جماعتوں کیلئے تین کمرے ہیں اگر مڈل سیکشن کی ششم تا ہشم کلاسیں پوری ہوں تو ہائی سکیشن کے بچو ں کا اللہ ہی حافظ انہیں بیٹھنے کیلئے شیلٹر تک میسر نہیں ہونگے۔
سکول میں ہیڈ ماسٹر کے علاوہ ایس ایس ٹی کی پوسٹیں عرصہ دراز سے خالی ہیں ایک ایس ایس ٹی بھی نہیں کہ جو ہائی سیکشن کے بچوں کو پڑھائیں سائنسی علوم و تجربات کیلئے کوئی سائنس روم یا لیبارٹری نہیںہے نہم و دہم کے طلباء سائنسی علوم کے حوالے سے ناواقف ہیں اسکول میں لائبریری اور سائنس لیبارٹری کی اشد اور فوری ضرورت ہے اسکول ہٰذا بغیر چاردیواری کے ہے طلباء و طالبات کیلئے کوئی بھی واش روم کی سہولت موجود نہیںہے کھیل کی سرگرمیاں تو ندارد،سکول کے بچوں کے مطابق ایک ٹیچر نے اپنے جیب سے فٹ بال اور کرکٹ کے کچھ سامان طلباء کے کھیلنے اور تفریح کے اوقات میں مصروف رہنے کیلئے خرید لائی ہے اساتذہ کی رہائش کیلئے ایک خستہ حال کواٹر ہے جو رہنے کے قابل نہیں اس کواٹر کی چھت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جو کسی بھی وقت اساتذہ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجاسکتی ہے اور نہ ان کیلئے واش روم و باتھ کا کوئی خاص انتظام ہے۔ 14اساتذہ کیلئے10×12کی دو کمرے ہیں جن میں اگر سب ایک ہی دفعہ بیٹھ جائیں تو شاید دو یا تین اساتذہ کو بیٹھنے میں مشکل پیش ہو۔ سارونہ میں ایک پرائمری سکول (کُردان کُھڈوماس)قابل ذکر ہے اس اسکول کا واحد ٹیچر عبدالخالق ہے اور اس پرائمری سکول میں 80سے زائد ریگولر بچے زیر تعلیم ہیں اور عبدالخالق روزانہ موٹرسائیکل پر تقریباََ 16کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے بچوں کو پڑھانے جاتا ہے اور اپنے فرض کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔ہائی اسکول سارونہ کے کئی حل طلب مسائل ہیں جن میں چاردیواری ، ایڈیشنل کلاس رومز، سائنس روم و لیبارٹری، لائبریری، پینے کا صاف پانی کیلئے بور، بجلی کیلئے جنریٹراور اساتذہ کیلئے کواٹرزکی فوری اور ترجیحی بنیادوں پر اشد ضرورت ہے۔ سرکاری سکول کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ سکول بھی ہے اور اس پرائیویٹ سکول کا سہرا بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو جا تا ہے سردا ر صاحب اس پرائیویٹ سکول کے لئے تنخواہوں کی مد میں ماہانہ ایک لاکھ 100.000روپے اپنی طرف سے فراہم کرتا ہے جو ان کی تعلیم دوستی کا عملی ثبوت ہے سارونہ جیسے پسماندہ علاقے کی تعلیمی حالات کو اپنی ترجیحات میں رکھا گیا ہے۔
Govt High School Saroona
صحت عامہ:۔ صحت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو صرف ایک بنیادی مرکز صحت نظر آتی ہے۔ادویات کی صورتحال بالکل اسی طرح ہے جیسے بلوچستان کے دوسرے تحصیل اور اضلاع میں ہے۔ RHC’sکو اگر کواٹرلی ایک لاکھ کی ادویات ملتی ہوں BHU’sتو ذیلی اور بیسک سطح کے صحتی ادارے ہیںان میں ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں روٹین کے ٹیکہ جات سرے سے ہی دستیات نہیں ہیں عملہ میں سے جو موجود ہیں وہ صرف فرمانِ سرکار اور فریضہ سرانجام دینے کی غرض سے ہسپتال بیٹھے ہوتے ہیں باقی اگر کوئی سیریئس نوعیت کا کیس ہوتو علاج کی کوئی دیگر سہولت موجود نہیں BHUسے 70میٹر کے فاصلے پر ایک پرائیوٹ کلینک ہے اور وہ بھی پونسٹان ، پیناڈول جیسے گولیاں اور ورین اور آرٹیفن جیسے انجیکشن تک محدود ہے۔ ایمبولینس کئی سالوں سے خراب پڑی ہے مریضوں کو کراچی منتقل کرنے میں کافی مشکلات درپیش آتے ہیںکئی مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں رہ کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں باہر کے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکس کے عملہ کیلئے رہنے کا کوئی انتظامات نہیں ہے وہاں ایک دوست نے بتایا کہ ایک دفعہ ہائی سکول کی ایک ٹیچر کی طبیعت اچانک بگڑ گئی تو اس ٹیچر کو کسی پرائیویٹ پک اپ گاڑی میں علاج کی غرض سے سارونہ سے براستہ کوڑیانگ شاہ نورانی لے گئے آپ سوچ رہے ہوں گے شاید شاہ نورانی میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی کوئی برانچ موجود ہے اس لئے مریض کو وہاں لے گئے اصل میں وہاں ایک جنرل فزیشن بیٹھتا ہے اور کسی حد تک مریضوں کو عارضی یا مستقل قسم کے ایک آدھ ادویات دیا جاتا ہے اس لیئے اس ٹیچر کو وہاں لے گئے مگر بات یہ ہے کہ مریض کو شاہ نورانی ایک تو کیسے لے جایا جائے اگر لے جائیں تو سڑک کٹھن اور مشکل گزار ہے وہاں تک4گھنٹے آسانی سے لگ سکتے ہیںچاہے جتنا بھی جلد بازی کیوں نہ کی جائے تو جناب صحت عامہ کے حوالے سے سارونہ کافی پسماندہ ہے اور ان کی حالات زار پر توجہ دی جائے ۔
سڑکیں:۔ کسی بھی علاقہ کو دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے ملانے والے اہم ذرائع سڑکیںہوتی ہیں جس کی وجہ سے علاقوں کے درمیان ہفتوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کی جاتی ہیں اور گھنٹوں کی مسافت کو منٹوں میں طے کیا جاتا ہے اگر سڑکوں کی سہولت نہ ہو تو کچھ فرلانگ کا فاصلہ طے کرنا بھی مشکل بن جاتا ہے سب تحصیل سارونہ میں سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں کچی سڑکیں 20km/hکی رفتار سے بھی سفر کرنا مشکل ہے جس کی مثال سارونہ تھانہ سے چلنے والی بس کا دیوانہ شاہ تک کے 42کلومیٹر کا سفر5گھنٹوں میں طے کرنا ہے سڑکیں اس قابل ہیں کہ اگر کوئی ایک دفعہ سارونہ جائے تو پھر دوبارہ جانے کا دل نہیں کرتا جس کی وجہ صرف اور صرف سڑکیں ہی ہیںشاہ نورانی سے آنے والی سڑک بھی کافی کٹھن ہے جو کوڑیانگ سے ہوتا ہوا سارونہ تھانہ سے ملا ہوا ہے یا درمیانی راستہ چھاپار پہاڑ کے اوپر سے جسے عام طور پرزین کا کھنڈ کہا جاتا ہے موٹر سائیکل پر ایک آدمی بڑی مشکل سے دوسری طرف پار ہوسکتا ہے علاقے میں پکی سڑکوں کی فوری اور ترجیحی بنیادوں پر ضرورت ہے۔
ذرائع آمدورفت و رسل و رسائل:۔ سارونہ براستہ ضلع لسبیلہ کراچی تین بسیں چلتی ہیں مسافروں کے ساتھ ساتھ ان بسوں میں تمام باربرداری اشیاء خوردنوش وراشن سمیت تمام ضروریات زندگی کو انہی بسوں میں لایا جاتا ہے مال مویشی بھی لے جایا جاتا ہے تو یہ ایک آل رائونڈر سروس ہے ۔ اچھے اور پختہ روڈز نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کارگو سروسز چلانے کی ہمت نہیں کرتے۔
Govt High School Saroona
ذرائع ابلاغ و مواصلات:۔ سارونہ میں ذرائع ابلاغ و مواصلات کا کوئی خاص نظام نہیں پرنٹ میڈیا کی بالکل سرے سے رسائی نہیں ہے حب کی طرف سے چلنے والی بسوں میں پسنجرز کبھی کبھار سارونہ آتے ہوئے روزنامہ انتخاب حب کی ایک دوکاپیاں ہاتھوں ہاتھ لاتے ہیں جو اگلے دن پہنچ جاتے ہیں ورنہ کچھ نہیں سارونہ بازار میں دو vfoneسیٹ لگے ہوئے ہیں 7کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سیٹ چمروک ایریا میں ہے جن کا بیس BASEکہیں 20کلو میٹردور پہاڑ پر نصب ہے کسی کو اگر رابطہ کرنا ہو تو وہ یہاں سے رابطہ کرنے چلا آتا ہے اوراگر کسی کو کسی اور جگہ سے سارونہ تھانہ کسی سے بات کرنا پڑجائے وہ پہلے کال کرکے متعلقہ شخص کو بلوالیتا ہے پھر وہاں سے مس کال کے ذریعہ اس کے آنے کا خبر دیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے فوری کا ل آجاتی ہے اور بات ہوجاتا ہے یہ کام سارونہ بازار میں ایک دکاندار سلطان احمد اوران کے بھائیوں محمد شریف، محمد امین اور حمید کا ہوتا ہے جس کیلئے وہ ایک معقول رقم حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کو کسی بھی وقت اس سہولت سے مستفید رکھتے ہیں تقریبا20.000سے 25.000 ہزار انسانی آبادی میں کم از کم ایک موبائل سروس کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
اسپورٹس: علاقے میں اسپورٹس گرائونڈ کہیں بھی نظر نہیں آتی فٹ بال کا کھیل تونام کی کوئی چیز ہی نہیں کہ کوئی فٹ بال کھیل کو جان سکے بلکہ کرکٹ کھیلنے والے چند لڑکے وہاں ہائی سکول کے عین سامنے اپنی مدد آپ کے تحت آدھی پچ بناکر کھیلتے نظر آتے تھے لیکن ان کے ساتھ اسپورٹس کے حوالے سے کوئی سرکاری یا علاقائی لوگوں کا تعاون دکھائی نہیںدے رہا تھا گرائونڈ میں موجود دو سینئر کھلاڑیوں سراج احمد اور راشد احمد سے جب اسپورٹس کے افادیت اور اہمیت کے حوالے سے کچھ جاننے کی کوشش کی تو ان کے مطابق کھیلوں کے حوالے سے انہیں کوئی سہولت میسر نہیں علاقے کے منتخب نمائندے یا کونسلران ہوتے ہیں تو وہ صرف اپنے ہی خیر مانگتے ہیں عوام کا اللہ ہی حافظ ان کے بقول گزشتہ سال ڈپٹی کمشنر جناب سید عبدالوحید شاہ نے ان کی ٹیموں سمیت ضلع خضدار کے تمام کرکٹ اور فٹ بال ٹیموں کیلئے کھیلوں کا سامان کافی تعداد میں مہیا کیا تھا لیکن سارونہ کے ٹیموں کی سامان کو نہ جانے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا یہ سامان خضدار سے مل چکے تھے لیکن سارونہ کی ٹیموں تک نہیں پہنچ سکا فارغ اور شام کے اوقات میں مقامی نوجوانوں کو کھیل جیسے سرگرمی کیلئے مخصوص جگہ میسر نہیں جہاںان کے شام کے کھیل کود کا بندوبست ہوجائے۔
لیویز تھانہ:۔ لیویز انتظامیہ کیلئے تین چا ر کمروں پر مشتمل ایک بوسیدہ عمارت ہے جو کسی بھی وقت معمولی جھٹکے میں گرسکتی ہے ان کمروںمیں نائب تحصیلدار کا دفتر ، رہائش اور قیدیوں کے لئے لاک اپ بھی ہیں ۔۔لاک اپ میں معمولی مقدمے کے نوعیت کے قیدی کو رکھنا بھی بڑی رسک ہے لیکن اگر کوئی دہشت گردیا خطر ناک قیدی پکڑا گیا تو وہ اسے رکھنا بھی ایک غلطی سے کم نہیں لیویز کی نفری بھی کافی کم ہے ۔۔