شاہی گرگے

Pakistan And Saudi Arabia

Pakistan And Saudi Arabia

تحریر : ساروان خٹک ریاض سعودی عرب
پاکستان اور سعودی عرب ایمان اور عقیدے کے مضبوط رشتے میں منسلک اسلامی دنیا کے دو اہم برادر ممالک ہیں – اور ہر پاکستانی کی یہ خواہش ہے کہ یہ رشتہ قائم و دائم رہے کہ بلد حرمین کی وجہ سے خصوصاً ہر پاکستانی عقیدت کی حد تک مملکت سعودی عرب سے محبت رکھتا ہے اور تمام پاکستانیوں کے دل مملکت سعودی عرب کے ساتھہ دھڑکتے ہیں – دوسری طرف جب مملکت سعودی عرب کو اللہ تعالی نے تیل کی نعمت سے نوازا اور یہاں تعمیر و ترقی کے منصوبے شروع ہوئے تو ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دیگر ممالک کے باشندوں کے ساتھہ ساتھہ پاکستانیوں نے بھی بھر پور حصہ لیا اور یہاں کے تپتے ریگستانوں کوگلستانوں میں بدل دیا –

جبکہ عسکری لحاظ سے مملکت سعودی عرب کے مسلح افواج کی تربیت بھی ہمیشہ سے پاکستان کی مرہون منت ہے پاکستان اور سعودی عرب کے دو برادر ممالک کے مستحکم تعلقات وقت کی ضرورت ہے خصوصا ً ان حالات میں جبکہ مملکت کے أس پاس عرب ممالک داخلی بدامنی کے شکار ہیں – بحرین میں سیاسی شورش جاری ہے – عراق پر غیر ملکی افواج قابض ہیں اور وہ بد امنی کے شدید ترین مرحلے سے گزر رہا ہے – لیبیا کی صورتحال غیر یقینی ہے – شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے – یمن میں حکومت اور قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے امن و استحکام کی صورتحال خراب ہے – مصر میں فوج کےغیر آئینی ’ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدامات کی وجہ سے سیاسی تشدد کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور بعید نہیں کہ یہاں خانہ جنگی اور زیر زمین پُر تشدد کاروائیوں کی ایک نئی لہر شروع ہو

دوسری طرف ایران خطے کے ممالک میں کھلی مداخلت کا مرتکب ہورہا ہے – بحرین میں اس کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں – شام میں تو ایران اور حزب اللہ براہ راست اس جنگ میں فریق ہیں – ایران کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں کہ وہ امت مسلمہ اور اسلامی اتحاد کی آڑ میں ایک مخصوص فقہ اور نظریہ کی برتری اور فروغ چاہتا ہے – ایران نے باقاعدہ مسلمان ممالک کے ہر بڑے شہر میں قونصل خانے کھول رکھے ہیں جو بظاہر امت مسلہ کے خوش نما اور پر کشش ناموں سے لیکن فی الحقیقت اپنی مخصوص فقہ کی ترویج کے لیے مختلف ناموں’ مختلف زبانوں ’ مختلف مواقع پر تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کے لیے رنگا رنگ پروگرام منعقد کرتی رہتی ہیں اور بے پناہ لٹریچر تقسیم کرتی رہتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی ذہنی تطہیر کرکے انہیں اپنا ہم نوا بنا سکے

 Pakistan's Foreign Office

Pakistan’s Foreign Office

پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایرانی کونسل خانوں کی سرگرمیاں عیاں ہیں – میں اپنے قریبی پشارو صدر میں خانہ فرہنگ ایران کا ذکر کروں گا – کہ ہر چھٹی کے دن کسی بھی خصوصی موقع پرپاکستان اور ایران کے قومی دنوں اور اس طرح روز کسی نہ کسی بہانے علماء دانشوروں صحافیوں اور ہر طبقے سے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کونسل خانے میں عزت و احترام اور ذمہ داران کا اخلاقی رویہ قابل دید ہوتا ہے – اسلامی وحدت اور اخوت اور محبت کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہوتی اور ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اگر دنیا میں اسلام کا صحیح نمونہ دیکھنا ہو تو بس ایرانیوں میں دیکھو- ہر پروگرام کے بعد خاطر تواضع لٹریچر تحفے تحائف دیے جاتے ہیں

غرض ایران کے کونسل خانے ذہنی تطہیر کے لیے بہانے ڈھونڈتی ہیں اور نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ بھاری اکثریت سے بل پاس کرتی ہے کہ پاکستان جنگ یمن میں غیر جانبدار رہے گا – حالانکہ جنگ یمن کا مقصد ہی مملکت سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی کڑی ہے – تو پھر اس میں پاکستان کی غیر جانبداری کیا معنی رکھتی ہےاور کیا یہ سعودی اور عرب عوام کے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو تو ایرانی اپنا ہی سمجھتے ہیں پچھلے برس خانہ فرہنگ ایران پشاور نے پشتو کے معروف شاعر ” آمیر حمزہ خان ِشینواری ” کے نام سے ایک پروگرام منعقد کیا جس کا موضوع تھا ” آمیر حمزہ خان شینواری اور محبت اہل بیت ” جس میں خیبر پِختونخواہ ’ قبائلی علاقوں اور بلوچستان تک کے دانشوروں کو مدعو کیا گیا – اس پروگرام کے در پردہ اپنے مخصوص کاز کو تقویت دینا تھا ورنہ اہل بیت سے تو ہر مسلمان محبت رکھتا ہے اور ہر شاعر کے کلام میں اہل بیت سے عقیدت کے بارے میں کلام موجود ہوتا ہے – لیکن ایران کا اہل بیت سے عقیدت اور پھر اس طرح دوسروں کی ذہنی تطہیر کرنا اور اپنے نظریات کو درست ثابت کرکے اہل علم و دانش کو ہمنوا بنانا اور بات ہے –

دوسری طرف افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سعودی حکام جی حضوریوں کی جھر مٹ اور اپنی دنیا میں مگن ہیں – سعودی عوام ” انا سعودی ” ” افضلیۃ للسعودیین ” اُمتین العربیۃ والاسلامیۃ ” ” اقامہ ” ” جوازات ” ” بصامات ” ” ملکی و غیر ملکی ” ” غیر ملکیوں کے گاڑیوں کے شیشے توڑنا ” ” موبائل اور نقدی چھیننا ” ” طوفان بدتمیزی سے گاڑیاں چلانا ” ” ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑانا ” ” اجنبی ” و خارجی سعودی اور غیر سعودی کے بدترین متکبرانہ تعصب میں مبتلا ہیں اور اپنے سوا کسی دوسرے بنی نوع کو انسان کا درجہ دینے کے بھی روادار نہیں ہیں اور یہاں مقیم ہر غیر ملکی اور مسلمان کے دل میں اپنے لیے نفرت کے بیج بورہے ہیں – ویسے تو عرب اور خصوصاً سعودیوں کے تعصبات اوربد تمیزی اور بد اخلاقیوں پر کتابوں کی کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں لیکن وہی بات کہ دو برادر اسلامی ممالک کے مضبوط اور مستحکم تعلقات ہر مسلمان اور پاکستانی کی طرح ہماری بھی خواہش ہے

Saudi Police

Saudi Police

لیکن بعض واقعات اتنے سرعام ہوتے ہیں کہ لاکھہ چھپائیں پھر بھی نہیں چھپتیں ان میں سے ایک ریاض کے بین الاقوامی ایر پورٹ پر سعودی شاہی گُرگوں (سعودی پولیس) یعنی ایر پورٹ حکام اور سیکوریٹی فورس کا حقارت آمیز رویہ ہے – جس طرح وہ پاکستانیوں سے مخاطب ہوتے ہیں اس کا دنیا کے کسی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا – پاکستانیوں کوسر عام گدھے (حمیر) کہہ کر پکارا جاتا ہے – استقبال کے لیے آنے والوں میں سے صرف پاکستانیوں کو دھکے دےکر اور لاتیں مار مار ” باکستانی کلب حمار ” پکار کر بھگایا جاتا ہے – ٹھیک ہے پاکستانیوں کی تعداد کچھہ زیادہ ہوگی لیکن دیگر ممالک تو اپنے ہوائی اڈوں کی ریل پیل سے خوش ہوتے ہیں اور لوگوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کے ہوائی اڈوں میں رونق رہے – ہمیں اس بارے میں کوئی حسن ظن نہیں کہ ایرپورٹ یا دیگر اعلی حکام ان واقعات سے لاعلم ہوں گے کیونکہ سیکورٹی کے جدید ترین نظام کے اس دور میں اور خصوصاً ایر پورٹ جیسے حساس علاقوں کا کونہ کونہ کلوز سرکٹ کیمروں اور دیگر آلات کی مدد سے اعلی حکام کے سامنے عیاں ہوتا ہے اگر یہ تعصب اور تکبر کی عینک اتار دیں تو انہیں پاکستانیوں کے ساتھہ یہ ناروا سلوک نظر آجائے گا-

پاکستان کے سفارت خانے کے حکام تمام تر ذمہ داری اپنے ہم وطنوں پر ڈالتے ہیں اور کبھی حکومتی سطح پر پاکستانیوں کی عزت و احترام کے بارے میں کوئی بحث ہی نہیں چھڑی – جبکہ مغربی ممالک کے کسی شہری کے ساتھہ پہلے تو اس طرح کا سلوک ممکن ہی نہیں اور اگر ہوتا ہے تو فوری اقدام کرتے ہیں اور مسلہ اعلی حکام تک پہنچاتے ہیں- پاکستانیوں میں حصوصاً مسلک اہل حدیث والے سعودی حکام کے قریب ہیں لیکن وہ بھی ایرانی عزائم کے توڑ کے لیے پاکستانیوں اور مسلمانوں کے دل جیتنے سے مجرمانہ غفلت پر سعودی حکام کے ساتھہ کوئی جامع پروگرام نہیں رکھتے صرف سعودی حکام کے ہاں میں ہاں ملانے ’” جی حضور” ” فضیلۃ الشیخ ” ” سماحۃ الشیخ ” ” اور حفظ اللہ کے القابات سے نوازتے رہنے ” ” صرف عقیدہ توحید کی رٹ لگانے ” ” چند کتابچے مفت بانٹنے ” سے ایران کے باطل نظریے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا- بلکہ ایسے لوگوں کے لیے علماء سوء کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور اللہ نہ کرے کہ اہل حدیث کے مبنی بر حق مسلک کے زعماء کل تاریخ کے کٹہرے میں علماء سوء کی صف میں کھڑے ہوں

امام کعبہ محترم آج اگر سات روزہ دورے پر پاکستان جاتے ہیں اور ہر شہر کا دورہ کرتے ہیں اور ہر جماعت اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے مل کر فرماتے ہیں کہ تمام مسلمان ایک اُمت ہیں تو بالکل بجا ہے امام محترم اور دیگر سعودی حکام کو بہت پہلے اس طرح کے دورے کرنے چاہیے تھے اور پاکستان میں ایک اُمت کی بات کرنے کے ساتھہ ساتھہ سعودیوں اور عربوں کو بھی قرآن و حدیث کا یہی درس یاد دلائیں کہ تمام مسلمان ایک اُمت ہیں – پاکسانیوں کے تو نعرے لگا لگا کر گلےبیٹھہ گئے کہ تمام مسلمان ایک اُمت ہیں اور فلسطین و کشمیر سمیت تما م مسلے اُمت مسلمہ کے مسلے ہیں لیکن سعودی عرب اور عرب ممالک کے تمام حکام اور نشریاتی ادرے قرآن و حدیث کے درس” اُمۃ واحدہ ” کے برعکس طوطے کی طرح مسلسل دو اُمتوں کی طرح باطل اور قرآن و حدیث کی ضد ” اُمتین العربیۃ والاسلامیۃ ” کر رٹ لگاتے رہتے ہیں اور آج تک کسی عربی نے کشمیر کے مسلے کو اپنا مسلہ نہیں کہا

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

بے شک کہ ہر پاکستانی مملکت سعودی عرب سے والہانہ محبت رکھتا ہے اور مملکت کی خوشحالی اور ترقی میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہر پاکستانی مملکت کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے دریغ نہیں کرتا – خصوصاً موجودہ وزیر اعظم پاکستان جو عرصے سے یہاں مقیم بھی رہے ہیں اور ان کے یہاں کی حکومت کے ساتھہ قریبی اور کاروباری تعلقات بھی ہیں – اس بارے میں اثر رسوخ استعمال کر سکتے ہیں کہ سعودی حکومت اپنے شاہی گًرگوں کو لگام دیں اپنے عوام کو اخلاق کا درس دیں تاکہ پاکستانی یہاں عزت و احترام سے رہ سکیں بلکہ اگر ممکن ہو توپاکستانیوں کے لیے کفالت کے ظالمانہ نظام میں سے سہولتیں حاصل کی جائیں تاکہ وہ مملکت کی تعمیر و ترقی اور اقتصاد میں بھر پور حصہ لے کر پاکستان کے اقثصاد کو بھی سہارا دے سکیں

مملکت سعودی عرب کے بڑے بڑے شہروں میں پاک سعودی کلچرل ہال کی سہولیات
حاصل کی جاسکتی ہیں جہاں پاکستانیوں کے لیے سعودی قوانین کے احترام پیشہ ورانہ تربیت سمیت مختلف علمی ادبی اور ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرکے دو برادر ممالک کے عوام کے درمیان ہم اہنگی کی فضا پیدا کی جاسکے پاکستان اور پاکستانیوں کو دفاعی اُمور میں بھی شریک کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر یہ دو اسلامی ممالک دفاعی معائدہ کرلیں تو یہ ایک مضبوط اور پائیدار اسلامی بلاک کی تشکیل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں اور اس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ بلا مبالغہ ہر پاکستانی حرمین شریفین اور خادم حرمین شریفین کی حکومت کی بقا و دوام کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے گریز نہیں کرتا

تحریر : ساروان خٹک ریاض سعودی عرب