اسلام آباد (جیوڈیسک) ساشا مگسی بلوچستان کی ہونہار بیٹی، جس نے کبھی بھی مشکلات سے گھبرا کر ترقی کا سفرنہیں روکا ۔ساشا پیدائشی طور پر چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔والدین اور ڈاکٹرز کی تمام تر کوششیں ساشا کو تندرست نہیں کرپائیں۔ساشا نے اس کمی کو اللہ کی رضا جانتے ہوئے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔
انتیس سالہ ساشا مگسی کوئٹہ میں پیدا ہوئیں اور اپنی ابتدائی تعلیم بیکن ہاوس میں حاصل کی۔بہترین طالب علم اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا شوق ساشا کو دیگر طالب علموں میں ممتاز کرگیا۔ہر وقت دوستوں کے جھرمٹ اور استاتذہ کی شفقت میں ساشا نے بہترین وقت اسکول میں گزرا۔
ساشا کہتی ہیں کہ میرے والدین میرے لئے بہت بڑی سپورٹ ہیں، انہوں نے کبھی بھی میرے اعتماد میں کمی نہیں ہونے دی۔بچپن سے ہی وہ مجھے ہر جگہ لے کرجاتے اس لئے مجھے کبھی بھی سوشلائیز کرتے ہوئے پریشانی نہیں ہوئی۔‘‘
’’میں جب اسکول میں داخل ہوئی تو استاتذہ اور طالب علموں کا رویہ مجھ سے بہترین رہا۔میں نے ہمیشہ بہت سہیلیاں بنائیں جس کے باعث میرا تعلیمی دور شاندار طریقے سے گزرا۔ہائی اسکول کے بعد جب کالج کی باری آئی تو میں نے جناح ٹاؤن کالج کا انتخاب کیا اور بی ایس سی کمپیوٹر سائنس میں کیا۔ڈگری مکمل کرنے کے بعد ہی مجھے بینک میں جاب مل گئ اور میں گزشتہ سات برس سےایک بینک میں بطور کسٹمر سروس آفیسر آپریشن جاب کررہی ہوں۔‘
ساشا کہتی ہیں کہ بینک میں مجھے ہمیشہ میرے سینئرز اور کولیگز کا تعاون ملتا رہا ہے۔ بینک آنے والے کسٹمرز بھی ہمیشہ بہت خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔کچھ تو مجھے ویل چیئر پر ہونے کے باوجود کام کرتا دیکھ کر داد و تحسین سے نوازتے ہیں۔
ساشا مزید کہتی ہیں اگر والدین اور فیملی کا بھرپور تعاون ساتھ ہو تو کچھ کرکے دکھانا ناممکن نہیں ۔میں آج جو بھی ہوں اپنے والدین کی محنت اور دعاوں کے نتیجے میں ہوں۔
ساشا کہتی ہیں کہفارغ اوقات میں مجھے کتابیں پڑھنا پسند ہے کبھی ٹائم ہو تو کوکنگ بھی کرتی ہوں،خریداری کا بھی شوق ہے۔چھٹی کے روز اکثر والدین اور بھائی کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے جاتی ہوں۔
ساشا کہتی ہیں ہماری معاشرے میں خصوصی افراد کو زیادہ توجہ اور تعاون کی ضرورت ہے۔کسی بھی شخص کا اچھا رویہ اور تعاون خصوصی افراد کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ان کی تعلیم پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
ساشا مگسی کی والدہ کہتی ہیں کہ ساشا پیدائشی طور پر چلنے سے قاصر ہیں میں نے اور ان کے والد نے بہت علاج کروایا لیکن ڈاکٹرز نے ہمیں بتایا کہ اس کا علاج ممکن نہیں۔اس موقع پر میرے والدین اور شوہر نے میرا بہت ساتھ دیا۔ان کی مدد سے میں نے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال شروع کی۔
میں نے کبھی ساشا کو اسپیشل بچوں کے تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھایا۔ میں نے ان کی تعلیم عام اداروں سےمکمل کروائی۔میں نے اور ساشا کے والد نےساشا کو ہر تقریب میں اپنے ساتھ رکھا جس کے باعث اس میں مزید اعتماد آیا۔
کسی بھی خصوصی بچے کو کمرے میں بند کردینا مسئلے کا حل نہیں ایسے بچوں کو مزید توجہ اور پیار سے ہم کارآمد شہری بناسکتےہیں۔میں نے خود ساشا کو پڑھایا بہترین تعلیم دلوائی اور آج ماشاء اللہ سے وہ بینک میں ایک اچھی پوسٹ پر کام کررہی ہے۔