امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایران کے اہم جوہری تنصیب پر حملہ کرنے کے لیے مختلف متبادل پر غور کیا تھا لیکن بالآخر اس ڈرامائی اقدام سے باز رہنے کا فیصلہ کیا۔
ایک اعلی امریکی افسر کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ جمعرات کو قومی سلامتی کے اپنے اعلی مشیروں کے ساتھ اوول آفس میں ہونے والی ایک میٹنگ کے دوران ایران کے جوہری تنصیب پر حملہ کرنے کے لیے مختلف متبادل پر غور و خوض کیا تھا، لیکن انہوں نے بالآخر ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میٹنگ میں نائب امریکی صدر مائیک پینس، وزیر خارجہ مائیک پومپیو، نئے کارگذار وزیر دفاع کرسٹوفر ملر اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملر بھی موجود تھے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے جوہری تنصیب پر حملہ کرنے پر ایسے وقت تبادلہ خیال کیا جب ٹرمپ کو ملک کا اقتدار حالیہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن کو 20 جنوری کوحوالے کرنا ہے۔ لیکن ٹرمپ 3 نومبر کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں اور ان انتخابات میں اپنی کامیابی پر مصر ہیں۔
اعلی امریکی عہدیدار نے صدر ٹرمپ کی اپنے اعلی ترین سلامتی مشیروں کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کی تفصیلات نیویارک ٹائمز کو بتاتے ہوئے کہا کہ مشیروں نے ٹرمپ کو اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے سے باز رہنے کا مشورہ دیا کیوں کہ اس سے بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جانے کا خدشہ تھا۔
اعلی امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘صدر ٹرمپ نے اس (ایرانی جوہر ی تنصیب پر حملے) پر مختلف آپشنز طلب کیے اور مشیروں نے ان کو ممکنہ منظر ناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد انہوں نے اس پر آگے نہ بڑھنے کا فیصلہ کیا۔‘
وائٹ ہاؤس نے اس خبر پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
صدر ٹرمپ اپنی چار سالہ دور صدارت کے دوران ایران کے خلاف جارحانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیش رو باراک اوباما کے ایران سے طے کردہ جوہری معاہدے سے بھی 2018 میں امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا، جس کے بعد انہوں نے ایران پر سخت پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔
اس سال جنوری میں صدر ٹرمپ کے حکم پر عراق کے شہر بغداد کے ہوائی اڈے کے نزدیک امریکی ڈرون حملے کے ذریعہ ایران کے اعلی فوجی افسر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ لیکن اپنے چار سالہ دور اقتدار میں وہ بڑے پیمانے پر جنگ چھیڑنے سے باز ہی رہے ہیں۔
ایرانی کے جوہری تنصیب کو نشانہ بنانے کے حوالے سے ٹرمپ نے صلاح و مشورہ ایسے وقت کیا جب اس سے ایک دن قبل ہی نیوکلیائی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقو ام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران نیوکلیائی افزودہ سینٹری فیوز کی پہلی کھیپ کو یورونیم افزودہ کرنے والے اپنے اصل پلانٹ سے ایک زیر زمین پلانٹ میں منتقل کرچکا ہے۔ اس کا یہ اقدام دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں ہونے والے نیوکلیائی معاہدے کے خلاف ہے۔
اقو ام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے تاہم کہا کہ ایران کا نیوکلیائی پروگرام پوری طرح پرامن مقاصد اور سویلین استعمال کے لیے ہے اور ٹرمپ کی پالیسیاں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی جارحانہ حرکتوں کو روکنے یا اس کا جواب دینے کے لیے اپنی قانونی فوجی طاقت کا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرنطنز میں واقع ایران کے سب سے بڑے نیوکلیائی تنصیب پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس سے علاقائی جنگ چھڑ سکتی ہے اوراس سے نو منتخب صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بائیڈن کی ٹیم نے اس نئی پیش رفت پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔