ایران (جیوڈیسک) عراق میں متعین سعودی عرب کے سفیر پر قاتلانہ حملے کی ترغیب دینے میں پیش پیش شیعہ ملیشیا “تحریک النجبا” کے سربراہ اکرم العکبی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ایران میں نافذ ولایت فقیہ کے نظام کا پیروکار ہے۔ شام اور عراق میں الکعبی کی لڑائی ایرانی پاسداران انقلاب کی ہدایات کے ماتحت ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہماری لڑائی کا محور “مزاحمتی ممالک” ہیں۔
ایران میں پاسداران انقلاب کے مقرب سمجھے جانے والے خبررساں ادارے “تسنیم” نے النجباء ملیشیا کے سربراہ اکرم الکعبی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ “ہم آیت اللہ علی العظمیٰ خامنہ ای کی قیادت میں ولایت فقیہ کے حکم کے پابند ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای مزاحمتی محور کے ممالک میں جہاں چاہیں گے وہیں پائیں گے۔”
انہوں نے یہ گفتگو بدھ کے روز ایران میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے لیے سرگرم سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ محسن الاراکی سے ملاقات کے دوران کی۔ الکعبی نے کہا کہ ان کے ماتحت کام کرنے والی ملیشیا عراق کی حشد الشعبی ملیشیا کا حصہ ہے۔ تحریک النجباء نے بھی مذاہب کےدرمیان قربت پیدا کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔ ان کے بہ قول اس کمیٹی میں علماء اہل سنت کو بھی شامل کیا گیا ہے جو دہشت گردوں سے چھڑائے گئے علاقوں میں سنی مسلمانوں کو دہشت گردوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتے ہیں۔
اکرم الکعبی نے دعویٰ کیا کہ فلوکہ اور تکریت کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے میں اعتدال پسند سنی علماء کی معاونت حاصل رہی ہے۔ مگر دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے الزام عاید کیا ہے کہ النجباء تحریک اور دیگر شیعہ گروپ عراق میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب ہو رہےہیں۔ حراست میں لیے گئے اہل سنت مسلک کے کارکنوں کو ٹارچر سیلوں میں رکھا جاتا ہے جہاں انہیں ہولناک اذیتیں دی جاتی ہیں۔
اکرم الکعبی کون؟ عراق میں اکرم الکعبی کا نام غیر معروف نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موصوف عراق میں متعین سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی حمایت میں مہم چلاتے رہے ہیں۔ صدر اول بریگیڈ کے سربراہ مرتضیٰ اللامی کو انہوں نے سعودی سفیر پر حملے کے لیے اکسایا تھا جس نے الکعبی کی ہدایت کی روشنی میں سعودی سفیر ثامر السبھان کے قتل کی ناکام سازش تیار کی تھی۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سعودی عرب کے سفیر کے قتل کی مجرمانہ سازش کی تیاری میں اکرم الکعبی کے ساتھ ساتھ ایرانی انٹیلی جنس اداروں کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ عراقی انٹٰلی جنس حکام نے اس سازش کے الزام میں جن ملزمان کو حراست میں لیا ہے انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی سفیر کے قتل کی منصوبہ بندی میں ایرانی خفیہ اداروں کا بھی ہاتھ ہے۔
خیال رہے کہ تحریک النجباء اور صدر الاول بریگیڈ دونوں “عصائب اھل الحق” نامی عراقی شیعہ گروپ سے مںحرف ہونے والی تنظیمیں ہیں جب کہ عصائب اھل الحق خود مقتدیٰ الصدر کی قائم کردہ مہدی ملیشیا کا حصہ رہ چکا ہے مگر کچھ عرصہ قبل اس نے مہدی ملیشیا سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔
سنہ 2013ء سے قبل اکرم الکعبی عصائب اھل الحق ملیشیا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں مگر تین سال پیشتر انہوں نے قیس الخزعلی اور عبدالھادی الدراجی نامی کمانڈروں کے ہمراہ اھل الحق سے مںحرف ہونے کے بعد “تحریک النجباء” نامی ملیشیا کی داغ بیل ڈالی اور ایرانی ولایت فقیہ کےساتھ اپنی مطلق وفاداری کا اعلان کیا تھا۔
ایرانی حمایت یافتہ فیلق القدس کی طرح تحریک النجباء کو بھی تہران کی طرف سے مالی، مادی اور معنودی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس گروپ نے سیدہ زینب کے مزار کے دفاع کی آڑ میں دسیوں جنگجو شام میں صدر بشارالاسد کے دفاع کے لیے بھجوائے۔