تحریر : حبیب اللہ سلفی پاکستان میں سعودی عرب کے نئے سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی نے اسلام آباد پہنچ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ ان سے پہلے ڈاکٹر عبدالعزیزبن ابراہیم الغدیر یہاں تعینات تھے جن کا ایک سال پہلے تبادلہ ہو ا تو ان کے بعد پاکستان میں آٹھ سال سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے والے علی عواض العسیری کوسعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں اپنا سفیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ بوجوہ پاکستان نہیں آسکے۔ اس دوران ایک سال تک یہ منصب خالی رہا اورقائمقام سفیر شیخ جاسم الخالدی احسن اندازمیں اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے تاہم پچھلے کچھ عرصہ سے اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ پاکستان جو سعودی عرب کا اہم اتحادی اور دوست ملک ہے ‘ یہاں اس عہدہ اور منصب کو اتنے عرصہ تک یوں خالی نہیں رہنا چاہیے کہ اس سے دونوں ملکوں کے مضبوط تعلقات سے حسد رکھنے والوں کو بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے کا موقع میسرآرہا تھا۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایک موقع پر ان تعلقات میں دراڑ ضرورآئی تاہم سعودی عرب نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار اداکیا اورہماری طرف سے کی جانے والی غلطیوں کو نظر انداز کیاجاتا رہا۔
سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر عبدالعزیز بن ابراہیم الغدیرجب یہاں سے جارہے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور پاکستانی عوام ایک قوم نہیں بلکہ ایک خاندان ہیں۔ بے شک میں پاکستان سے جارہا ہوں مگر میرا دل یہی رہے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ 1947 سے سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ہے اور دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات ان شاء اللہ تاابد رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے ۔ پاکستانیوں پر جب کبھی کوئی مشکل وقت آیا ہے سعودی بھائیوںنے ہمیشہ مدد کاحق ادا کیا ہے۔ 2010ء میں جب پاکستان میں شدید سیلاب آیا توانہوںنے اپنا قومی دن چھوڑ کر خیبر پختونخواہ میں سیلاب متاثرہ بھائیوں کے ساتھ شب و روز گزارے اور محبت و بھائی چارے کی منفرد مثالیں قائم کیں۔ سعودی عرب مسلمانوں کا روحانی مرکز اور واحد ملک ہے جس کا پاکستان کے مفادات کیخلاف کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔پاک سعودی تعلقات کے درمیان محبت اور اخوت کے جو لازوال رشتے قائم ہیں انہیں پوری دنیا میں نا صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ دوستی کے اس پر خلوص رشتہ کی عالمی دنیا میں مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دونوںملک یک جان دوقالب ہیں جس کا واضح اظہار ہر اس موقع پر دیکھنے میں آیا جب پاکستان کو زلزلہ، سیلاب یا کسی اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ہر مشکل وقت میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی وہ برادراسلامی ملک ہے جو ہمیشہ پاکستانیوں کی مدد کیلئے پہنچااور ساتھ نبھانے کا حق ادا کیا ہے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے یہی وجہ ہے کہ اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگاہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
Saudi Arabia and Pakistan
سعودی عرب کے نئے سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی کی پاکستان آمد پر زبردست خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ پاکستان آنے سے پہلے وہ لبنان میں قائم سعودی سفارت خانہ میں ڈپٹی چیف آف مشن کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ وہ تین سال تک وطن عزیز پاکستان میں بھی ڈپٹی چیف آف مشن رہ چکے ہیں اور پاک سعودی تعلقات کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ سفارتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک سنجیدہ طبع اور نفیس شخصیت کے طور پر ہے۔ جن لوگوںکو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک سفیر اور سعودی عرب جیسے اسلامی ملک کے نمائندہ میں ہونی چاہئیں۔ وہ ایک سال کے وقفہ کے بعد سفارتی ذمہ داریاں نبھانے یہاں پہنچے ہیں اور بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔اسلام آباد پہنچنے پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہاں آکر ا یسے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ یہ ان کی طرف سے اس ملک اور یہاں کے عوام سے بے پناہ محبت کا اظہار ہے ۔ پوری پاکستانی قوم وطن عزیز پاکستان سے متعلق ان کے والہانہ جذبات کی قدر کرتی ہے اور ان کی یہاں آمد پرانہیں خوش آمدید کہتی ہے۔
نئے سعودی سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی کی تعیناتی ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب برادر اسلامی ملک کو یمن میں بغاوت کا مسئلہ درپیش ہے اور حوثی باغی غیر ملکی قوتوں کی پشت پناہی پرنہ صرف یہ کہ یمن کا امن برباد کر رہے ہیںبلکہ حرمین شریفین پر بھی قبضہ کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور سعودی سرحدوں پر حملے کر کے دشمنان اسلام کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب کو یقینی طور پر پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے ۔ بعض دشمن قوتوں کی خواہش ہے کہ پاکستان میں اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ تناظر میں پیش کیا جائے اور عوام الناس کا ذہن خراب کیا جائے تاکہ پاکستانی حکمران برادر اسلامی ملک کے ساتھ کھل کر تعاون کا فیصلہ نہ کر سکیں۔ اگرچہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے اس ملک میں پچھلے چند ماہ کے دوران کی جانے والی اس نوعیت کی تمام سازشیںناکام ہوئی ہیں اور پاکستانی قوم نے واضح طور پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے وہ کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اس مقصد کیلئے پاکستان کا بچہ بچہ کٹ مرنے کیلئے تیار ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی اس حوالہ سے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نئے سعودی سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے تجربہ اور معاملہ فہمی کی بنیاد پر پاک سعودی دوستی کومزید مستحکم کرنے اوربے مثال بنانے میں یقینی طور پر اہم کردار ادا کریں گے۔آخر میں ہم وزیر اعظم نواز شریف سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کے توڑ کیلئے اپنی ذمہ داری ادا کریں اور یمن میں بغاوت ختم کرنے کیلئے محسن ملک سعودی عرب کا کھل کر ساتھ دیا جائے۔ مسلم امہ کے روحانی مرکز کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں پر کسی صورت خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔