تحریر: انجینئر افتخار چودھری ہمارے گائوں سے تھوڑی ہی مسافت پر گائوں پینہ ہے لورہ روڈ پر یہ گائوں ندی ہرو کے کنارے ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔اس علاقے کی خوبصورتی سے کسی کو کیا مطلب ۔لوگوں نے یا تو فوج میں بھرتی ہو کر مرنا ہے یا ادھر پچھواڑے میں بنے کیپیٹل سٹی میں چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے گزر بسر ہوتی ہے۔ بھلا ہو ستر کی دہائی میں عربوں کا تیل نکل آیا ورنہ ان بے چاروں کا تیل تو اس علاقے کے جاگیر داروں نے نکال ہی دیا تھا۔یہاں کی زیادہ آبادی عباسی گجر اور اعوان گھرانوں پر مشتمل ہے ظاہر ہے ان کا کوئی پیر و مرشد بھی ہوتا ہے کچھ سید کچھ موچی کمہار جولاہے یہ سب شیر وشکر ہو کر رہتے ہیں یہاں امن کی صورت حال بہت بہتر ہے مدتوں بعد کوئی بری خبر آتی ہے ۔٢٥ جولائی ١٩٧٧ کی صبح جدہ کے ہوئی مستقر پر پی آئی اے کی ایک فلائیٹ مجھے چھوڑ گئی ان دنوں لوگ دھڑا دھڑ عمرے ویزے پر یہاں پہنچ رہے تھے۔
ایئر پورٹ جو کندرہ میں ہوا کرتا تھا چھوٹا سا ایئر پورٹ تھا شائد راوالپنڈی کے چکلالہ ایر پورٹ جیسا دو دو عشرے پہلے تھا۔میرے پاس بس ایک پتہ تھا ایک انگلش کمپنی اسٹریٹرز آف گوڈل منگ کا ایڈریس تھا۔خدا خدا کر کے دن کے دس بجے ان کی تلاش شروع ہوئی اور رات آٹھ بجے میں اپنے عزیزوں کے پاس پہچ گیا ساری زندگی گجرانوالہ گزاری تھی وہاں کوئی ٹھکانہ ملا تو وہ میرے ننھیالی رشتہ داروں کا تھا جو وہاں ماسٹر غلام محمد کی زیر نگرانی کام کیا کرتے تھے۔وہ تین کمروں کا گھر تھا تیسرا تو باورچی خانہ تھا باقی دو ہی کمرے تھے۔گھر میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ایک کمرہ ہمارا مسکن ٹھہرا ماسٹر صاحب میرے رشتے داروں میں سے تھے۔
Jeddah City
انتہائی قابل اور ریاضی کے نامور استاد تھے چھٹی لے کر جدہ نکل گئے تھے ان کے ساتھ لسن گائوں کے ہی بھائیا ولی،کاکا،شیر زمان، ماستر سیف الرحمان شفیق سمند کے چودھری یونس بابو اشرف پینہ اور میرے گجرانوالہ محلہ باغبانپورہ کا ایک پٹھان بھائی گل خان بھی تھا۔نواں میں بھی جا پہنچا میرے جانے کے بعد کوئی ایک بھائی دوسرے کمرے میں شفٹ ہو گیا۔وہ بھی کیا دن تھے ایک کمرہ جس میں آٹھ گدے اور ان پر دس آدمی لسویا کرتے تھے۔کمرے اے سی نہیں تھا اس لئے کہ جدہ میں اس وقت ناکافی بجلی تھی ایک چائینہ کا سبز سا پنکھا ٹیٹ کمپنی کا رون رون کرتا رہتا تھا۔سارے مزدور لوگ دن بھر مزدوری کرتے رات کو بنیانیں پہنے وقت گزارتے تھے۔کبھی کبھی جب سوچتا ہوں کی کیا میں وہی تھا جو اس مشکل وقت سے گزر گیا۔
بابو اشرف سے میری دوستی وہ گئی وہ بھی بڑے تیز و تند مزاج کے تھے اور میں خود بھی کم نہ تھا ایک دو بار کسی بات پر جھڑپ ہوئی بعد میں ایک دوسرے کو برابر کی طاقت سمجھ کر سمجھوتہ کر لیا جو بعد میں گہری دوستی میں تبدیل ہو گیا۔میرے جانے کے بعد ان کے معاملات سدھر گئے مجھے کھانے پینے اور پکانے کا تجربہ تھا جاتے ہی مٹی کے تیل والے چولہے پر جو راہداری میں رکھا رہتا تھا مرغی پکانے کی ابتداء کی سالن میں پہلے دانہ کوئی کوئی ہوتا تھا مرغی پکتی تو تھی مگر کبھی کبھی۔اس پر ایک بار گل خان نے احتجاج کیا کہ دیکھو بابو!تمہارے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد میرے حالات نہیں بدلے مجھے اس وقت بھی مرغی کا آخری حصہ ملا کرتا تھا اور اب بھی۔گل خان اکیلا پشتون تھا جو ہم میں موجود تھا مجھے میرا بچپن یاد آ گیا مولوی نوری صاحب مرحوم کی مسجد کے سامنے بھائی اللہ رکھے کے گھر کے پاس اس کا لکڑیوں کا ٹال تھا مجھے اچھا لگتا تھا میں نے مذاق کیا کہ خان صاحب کل سے آپ کو مرغی کا اگلا حصہ ملے گا۔
وہ کہنے لگا یہ جو چوڑی ہے ناں چوڑی یہ ماسٹر کھا جاتا ہے اس لئے کہ وہ فورمین ہے۔حالنکہ ایسی بات نہیں تھی۔میں نے انہیں اپنا حصہ بھی دینا شروع کیا یوں پردیس میں ہم شیر و شکر تھے۔کاش ہ پاکستان میں بھی ہوں۔بابو اشرف سے مزید دوستی اس وقت پختہ ہوئی جب ہم پر ایک عذاب نازل ہوا ۔ہوا یہ کے ساتھ والے کمرے میں رہائیشی ایک پختون بھائی نے جڑی منزل کی بالکونی میں کھڑی کسی لڑکی کو لائن مارنے کی کوشش کی اور کیمرے کی فلش مار دی۔ہم سب وہاں عمرے کے ویزے پر تھے انہوں نے پولیس کو بلوا لیا شام کو چھاپہ پڑا۔اللہ بھلا کرے ماسٹر صاحب بچ گئے انہوں نے اس راستے پر سیف الرحمان کو کھڑا کر دیا۔جس سے میں بھی بچ گیا۔(جاری ہے)