سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب میں ہونے والی سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کو پاکستان میں بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے اور کئی حلقوں میں ان ہونے والی تبدیلیوں پر بحث بھی جاری ہے۔
پاکستان میں جن مذہبی تنظیموں کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات انتہائی خوشگوار اور قریبی ہیں وہ ان تبدیلیوں پر بالکل خاموش ہیں۔ ملک کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ان تبدیلیوں کا پاکستان پر مثبت اثر پڑے گا کیونکہ سعودی عرب کی سیاست نے ہمیشہ پاکستان کو متاثر کیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا۔
کچھ دنوں پہلے جب پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان نے مبینہ طور پر ایک لڑکے کی صرف اس لیے پٹائی کی کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر پڑھ رہا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا پر ناقدین نے جمیعت سے مطالبہ کیا کہ وہ سعودی عرب جاکر مخلوط محفلوں کو روکے۔ پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک سعودی خاتون کی تصویر بہت وائرل ہوئی جس میں انھوں نے سعودی عرب کے قومی پرچم کو اپنے جسم سے لپیٹا ہوا ہے۔ اس تصویر کو نا صرف لبرل سرکل نے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کیا بلکہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور ان کی پارٹی نے بھی اس وائرل ویڈیو کا تذکرہ کیا۔
مثبت تبدیلیاں پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ہمیشہ سعودی عرب اور ایران کو تنقید کی نظر سے دیکھا ہے۔ تاہم اب ان کی رائے بدل رہی ہے۔ ویمن ایکشن فورم سے تعلق رکھنے والی مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ سعودی بہنوں کو جو آزادی دی جارہی ہے وہ ہمیشہ سے ان کا مطالبہ رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “وہاں خواتین کو کار چلانے کی اجازت مل گئی ہے۔ وہ کاروبار کر رہی ہیں۔ نوکریاں بھی کر رہی ہیں۔ یہ تمام وہ تبدیلیاں ہیں جن کو ہم انتہائی مثبت سمجھتے ہیں۔”
سعودی عرب کا پاکستان پر اثر پاکستانی مزدوروں کی بہت بڑی تعداد سعودی عرب جاتی ہے جہاں سے وہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان جہاد کے دوران سعودی عرب پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ ملک بھر کے 36 ہزار سے زائد مدارس کی وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر فنڈنگ بھی کرتا رہا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ جنرل ضیا نے اسلامائزیشن کی پالیسی بھی سعودی عرب کو خوش کرنے کے لیے اپنائی تھی جبکہ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں شریعت بل لانے کی کوشش کیا، جس کا مقصد ریاض کو خوش کرنا تھا۔
اسلام آباد اور ریاض افغان مجاہدین کی حمایت میں بھی آگے آگے تھے، جس سے پاکستانی معاشرے پردور رس نتائج مرتب ہوئے۔
مذہبی شخصیات کا اثر ورسوخ کم ہوگا پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” پاکستان کے تین لاکھ سے زیادہ مزدور سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دھائی میں جب وہ سعودی عرب گئے تو وہاں سے میوزک اور ٹی وی لے کر آئے۔ لیکن اسی کی دہائی میں جو مزدور گئے وہ مذہبی شدت پسندی لے کر آئے اور اس نے پختونخواہ کے معاشرے کو بلکہ پورے پاکستان کے معاشرے کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ اب جب کہ یہ وہابی اسلام وہاں نہیں ہوگا اور سعودی عرب میں جگہ جگہ میوزک اور مخلوط پروگرام ہوں گے یقینا اس سے پاکستان کے مزدوروں پر بہت اثر پڑے گا۔”
ان کے بقول اس کے علاوہ پاکستان میں جن مذہبی تنظیموں کو سعودی پیسہ ملتا تھا جب وہ پیسے نہیں ملیں گے تو ان کا اثر و رسوخ بھی کم ہوگا۔
پورا عالم اسلام متاثر ہوگا حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے دانشور امداد قاضی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات پاکستانی معاشرے سمیت پورے عالم اسلام پر ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “میرے خیال میں پہلا اثر تو یہ ہو گا کہ جس تیزی سے اسی کی دہائی میں مدارس کھل رہے تھے اب سعودی فنڈنگ بند ہو جائے گی، تو ان مدارس کے کھلنے کی رفتار بھی دھیمی پڑے گی۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں سعودی نواز مولوی صاحبان اب معتدل مزاج بن جائیں گے۔ اب اگر پاکستان میں کوئی لبرل سماجی اصلاح ہوگی اور مذہبی شخصیات اس پر تنقید کریں گی، تو لوگ کہیں گے کہ سعودی عرب میں بھی تو ایسا ہوتا ہے۔”
امداد قاضی کے بقول اس سے پاکستان کے مذہبی طبقے کو بہت بڑا دھچکا نہیں لگے گا کیونکہ پاکستان میں مذہب کی ریاستی سرپرستی ہے۔ ” بنگلہ دیش میں ریاست سرکاری طور پر مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت نہیں کر رہی تھی اس لیے وہ مذہبی انتہا پسندوں کو کچلنے میں کامیاب ہوگئے۔ پاکستان میں صورتحال مختلف ہے جہاں ریاست ان مذہبی انتہا پسندوں کو استعمال کرنا چاہتی تھی۔”