گزشتہ روز سعودی عرب کے ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والے بیٹی سے زیادتی کرنے کے بعد قتل کرنے کے فیصلے سے کروڑوں مسلمانوں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہو اہے اور کیوں؟ اس فیصلے کے بعد درجنوں سوالات پیدا ہوئے۔ تفصیل تو بہت ہے لیکن قصہ مختصر یہ ہے کہ سعودی عرب میں ایک سفاک باپ کو اپنی ہی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے بعد اسے تشدد کر کے قتل کرنے کے الزام میں 8 برس قید کی سزا دی گئی ہے۔
سعودی باشندوں سمیت دنیا بھر کے انسان دوست یہ سوال کرنے میں بحق بجانب ہیں کہ اس فیصلہ سے انصاف اور انسانی اخلاقیات کے کون سے تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔یہ بدبخت شخص صرف باپ ہی نہیں تھا بلکہ وہ خود کو مبلغ اور عالم دین بھی قرار دیتا تھا۔ گرفتاری سے قبل اس کا ایک دینی پروگرام ٹیلی ویڑن پر نشر کیا جاتا تھا۔ سعودی عدالت نے اس شخص کو جس کا نام فیہان الغامدی بتایا گیا ہے، 8 برس قید کے علاوہ 800 کوڑے مارنے کی سزا بھی دی ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ سزا حال ہی میں ایک دوسرے سعودی شہری کو سائبر کرائم میں ملوث ہونے پر دی جانے والی سزا کے مماثل ہے۔ ایک سعودی عدالت نے ایک شخص رئیف برادعی کو ملک کے اینٹی سائبر کرائم قوانین کی خلاف ورزی پر 7 برس قید اور 600 کوڑوں کی سزا دی تھی۔
اسی طرح حال ہی میں چار نوجوانوں کو ایک ساحل کے کنارے اپنی کار کی چھت پر برہنہ ڈانس کرنے کے جرم میں دس دس سال قید اور ہر کسی کو 2 ہزار کوڑے مارنے کی سزا ملی تھی۔ سعودی عرب میں اسلام کے شرعی قوانین نافذ ہیں اور منشیات کی اسمگلنگ، قتل، ریپ یا ڈاکہ زنی جیسے واقعات میں ملوث لوگوں کو عام طور سے موت کی سزا دی جاتی ہے۔ تاہم اس نام نہاد عالم اور مبلغ کو اسلامی قوانین کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے محض 8 برس قید کی سزا دی گئی ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے سعودی حکام نے وضاحت کی ہے کہ مرنے والی معصوم بچی کی ماں نے قصاص لے کر قاتل باپ کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لئے عدالت نے سفاک باپ کو اپنی سابقہ بیوی اور بیٹی لامہ کی ماں کو 10 لاکھ سعودی ریال قصاص ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے اس شخص کی سزا میں کمی ہوئی ہے اور اسے موت کی سزا نہیں دی گئی۔ تاہم اب یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اس عورت کو جو دراصل مصری نڑاد ہے۔
Fayhan Al Ghamdi
قصاص لینے پر مجبور کیا گیا ہو۔ لامہ کی ماں نے شروع میں باپ کے لئے موت کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اب اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک غریب عورت ہے اس لئے اس نے قصاص لے کر بیٹی کا خون معاف کر دیا ہے۔ یہ خاتون بھی ایک عجیب ماں ہے جو اپنی غربت کا مداوے کے لئے اپنی ہء مظلوم بیٹی کا خون فروخت کرنے پر آمادہ ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس مقدمہ کی کارروائی ہونے کے بعد سعودی حکام کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس واقعہ کو اسلامی قوانین کی روشنی میں دیکھنا ہو گا۔ کیونکہ باپ کو اولاد کے قتل پر موت کا سزا وار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم نام نہاد عالم دین کے خلاف سول سوسائٹی کی طرف سے شدید مہم چلائی گئی تھی۔ عالمی طور پر بھی اس مقدمہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اب اس مقدمہ میں ایک بھیانک اور شرمناک جرم کرنے والے ایک درندہ نما انسان کو تقریباً معاف کر دیا گیا ہے۔اسلام کی آمد پر قصاص کے قوانین متعارف کروانے کا مقصد عرب میں موجود قبائلی دشمنیوں کو ختم کرنا اور صلح جوئی کی فضا پیدا کرنے میں مدد دینا تھا۔ یہ قوانین ایک خاص طرح کے معاشرے میں خاص حالات میں متعارف کروائے گئے تھے۔
فی زمانہ جب معاشرے کا ڈھانچہ مختلف اصولوں اور ضابطوں پر استوار ہے، ان قوانین کی آڑ میں بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا مرتکب ہونے والوں کے لئے معافی کا راستہ نکالنا انسانیت کے علاوہ اسلام کے ساتھ بھی ظلم کے مترادف ہے۔ فیہان الغامدی نے 5 سالہ لامہ کی ماں کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لی تھی۔ وہ اپنی بچی کو ماں سے لے کر آیا تھا۔ اس دوران اسے خوفناک درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بچی کو شدید زخمی حالت میں جب ریاض کے ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا تو اس کی حالت خستہ تھی۔
اس کی پسلیاں اور سر کا خول ٹوٹ چکا تھا۔ اسے ہنٹر اور بجلی کی تاروں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس ظلم کے دوران معصوم بچی کے ناخن تک کھینچ لئے گئے تھے۔اس دہشتگردی میں ملوث بدبخت باپ کا کہنا ہے کہ اس نے اس شبہ میں بچی کو مارا تھا کہ لامہ جنسی تعلق استوار کر چکی تھی۔ لیکن کوئی اس جھوٹے مولوی کی باتوں کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے خدائی حکم کے تحت یہ اقدام کیا تھا۔ اس قسم کے شخص کو اسلام کی توہین کرنے، بچی کو قتل کرنے اور اپنی ہی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے کے جرم میں سخت ترین سزا ملنی چاہئے تھی۔ تاہم ایک سخت گیر سعودی نظام میں ایک مرد اور باپ ہونے کے ناطے ایک ایسے شخص کو رعایت کا مستحق سمجھا گیا ہے جو کسی قسم کی نرمی اور ہمدردی کا مستحق نہیں ہے۔
اس واقعہ نے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فضا کو مزید ہموار کیا ہے۔ اسلام دشمن عناصر خاص طور سے ایسے واقعات کو اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے اور انہیں فرسودہ قرار دینے کی مہم میں استعمال کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں مسلمان ملکوں کو خاص طور سے اس قسم کے معاملات میں ظلم کا ارتکاب کرنے والے کو عبرت ناک سزا دینی چاہئے اور اسلام کے قوانین اور شرعی مثالوں کا حوالہ دے کر ظلم کی تبلیغ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔سعودی عرب امریکہ اور مغربی ممالک کا اہم ترین حلیف ہے۔ اس کے باوجود اس ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ آزادء رائے کو مسترد کرنے کے علاوہ عام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ عورتوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا گیا ہے۔
انہیں نہ تو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی کار چلانے کی اجازت حاصل ہے۔ بلکہ اس حق کو مزید سلب کرنے کے لئے یہ قانون بنایا گیا ہے کہ جو لوگ کسی عورت کو اپنی کار چلانے کے لئے دیں گے، انہیں بھی سخت سزا دی جائے گی۔ دنیا بھر میں سعودی طریقہ کار پر حرف زنی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اور طاقتور مغربی ممالک سعودی حکومت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سعودی حکام کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ لامہ کا سانحہ ایسے متعدد واقعات میں شامل ہو گا جہاں سعودی نظام میں شرعی قوانین کے نام پر ظلم کا پرچار کیا گیا ہے۔
سعودی حکمرانوں کو آنکھیں کھولنی چاہئیں۔ آخر وہ اپنے ہی شہریوں پر اس قسم کا انسانیت سوز ظلم کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ ایک 5 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور بربریت محض ایک خاندان کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ ایک فرد کی طرف سے معاشرے میں فساد بپا کرنے سے متعلق ہے۔ جس معاشرے میں معمولی سماجی جرائم اور سیاسی حقوق کی بات کرنے پر سخت سزائیں دی جاتی ہوں وہاں پر ایک معصوم کمسن بچی کے قاتل کے ساتھ یہ ”دریا دلی” پورے نظام اور حکمرانوں کے پورے طبقے کی نیک نیتی کے بارے میں سوالیہ نشان بن چکی ہے۔